اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ
اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان (١٤) ہے، وہ جسے چاہتا ہے روزی دیتا ہے، اور وہ قوت والا، زبردست ہے
فہم القرآن : ربط کلام : جس طرح حق وباطل میں فرق سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک میزان قائم فرمایا ہے اسی طرح اس کے ہاں رزق کے لیے ایک میزان ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ لوگوں کا رزق کم اور زیادہ کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے زائد اسماء الحسنیٰ ہیں۔ اسم ” اللہ“ کے علاوہ تمام کے تمام صفاتی اسمائے گرامی ہیں۔ ہر اسم اپنے آپ میں ایک متعین معنٰی رکھنے کے باوجود دوسری صفات کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ اسماء عالی مرتبت میں ایک مبارک نام ” اللَّطِیْفُ“ بھی ہے۔ ” اللَّطِیْفُ“ کا معنٰی باریک سے باریک چیز کو جاننے والا اور اپنی مخلوق پر ہمہ وقت لطف و کرم کی برکھابرسانے والاہے۔ اسی لطف وکرم کا نتیجہ ہے کہ انسان اس کی بغاوت کی انتہا کردیتا ہے مگر پھر بھی وہ اسے اپنی عنایات سے نوازتا ہے۔ اس کی بڑی بڑی نوازشات میں انسان کے رزق کا اہتمام کرنا بھی ہے۔ وہ اپنی حکمت کاملہ کے تحت جتنا اور جسے چاہتا ہے رزق سے نوازتا ہے۔ اس کے خزانوں میں کمی واقع نہیں ہوتی اور اس کے نظام میں کوئی دخل انداز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس نے ہی اس کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے اللہ پر ہی بھروسہ کرے۔ کسی اور کی آس میں نہ بیٹھا رہے۔ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللَّہِ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے۔ تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خالی پیٹوں کے ساتھ صبح کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔“ تفسیربالقرآن : اللہ ہی رزق عطا کرنے والا ہے : (الذاریات : 58) (سباء : 39) (یونس : 31) (الزمر : 52) (ھود : 6) (الحجر : 20) (طٰہٰ : 132) (البقرۃ: 212) (العنکبوت : 60)