وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
اور ان لوگوں نے ان کے پاس صحیح دین کا علم آجانے کے بعد، محض آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اختلاف (١٠) کیا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے، ان کے بارے میں وقت مقرر تک تاخیر کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا، تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا گیا ہوتا، اور جو لوگ گذشتہ کافروں کے بعد اللہ کی کتاب (یعنی قرآن) کے وارث بنائے گئے (یعنی یہود و نصاریٰ یا کفار قریش) وہ لوگ اس کتاب کے بارے میں بڑے گہرے شک میں پڑے ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کا دین ایک ہی تھا مگر ان کے بعد ان کے نا خلف وارثوں نے باہمی حسد وبغض کی وجہ سے اس میں اختلافات پیدا کردیئے۔ دین کی بنیاد توحید ورسالت پر ہے۔ توحید کا معنٰی ہے کہ ایک اللہ کا حکم مانا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ رسالت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جو فرمایا اور کرکے دکھلایا اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ ان دونوں چیزوں سے جو شخص جتنا آگے پیچھے ہوگا اتنا ہی وہ اتحاد امت سے دور ہوگا اور عملاً اختلافات کا باعث بنے گا۔ اگر اس اختلاف میں حسد وبغض شامل ہوجائے تو دین اور ملت تفرّقہ بازی کا شکارہوجائیں گے پہلی امتوں میں یہی کچھ ہوا۔ قرآن مجید بتلا رہا ہے کہ یہ تفرقہ بندی بے علمی کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی کہ انہیں علم نہ تھا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟ جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے ؟ پہلی امتوں کے علماء اور زعماء کو سب کچھ بتلادیا گیا تھا مگر ذاتی مفاد اور باہمی عناد کی وجہ سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ذاتی اور جماعتی مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئے۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ آنے والی نسلوں کا دین سے اعتماد اٹھ گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات طے نہ ہوتی کہ لوگوں کو فکروعمل کی آزادی دی جائے اور ان کے اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی ان کا فیصلہ چکا دیتا۔ امت مسلمہ کو اس صورت حال سے بچانے کے لیے نبی (ﷺ) نے یوں راہنمائی فرمائی ہے۔ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوْا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذ ہ لامۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی۔ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا تم بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ تم کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ کسی کی غیر حاضری میں باتیں کرو‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔“ مسائل : 1۔ پہلی امتوں کے علماء اور زعماء نے باہمی حسد کی وجہ سے دین اور امت کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ قیامت پر چھوڑ رکھاہے ۔ 3۔ دین میں اختلافات پیدا کرنے سے لوگوں کا دین پر اعتماداٹھ جاتا ہے۔ تفسیربالقرآن : دین اور امت میں اختلافات سے بچنے کا حکم : 1۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ! تفر قہ بازی میں نہ پڑو!(آل عمران : 103) 2۔ اتحاد واتفاق اللہ تعالیٰ کی توفیق کا نتیجہ ہے۔ (الانفال : 63) 3۔ اتحاد اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ (آل عمران : 103) 4۔ کتاب اللہ کارشتہ نہ ٹوٹنے والا ہے۔ (البقرۃ: 256) 5۔ باہمی اختلاف اللہ کا عذاب ہوتا ہے۔ (الانعام : 65)