وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسروں کو دوست (٣) اور مددگار بنا لیا ہے، اللہ ان کے اعمال کو محفوظ کر رہا ہے، اور آپ ان پر نگراں نہیں مقرر کئے گئے ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : بخشنہار اور مہربان ” اللہ“ کو چھوڑ کر لوگ دوسروں کو اپنا کارساز اور خیر خواہ بناتے ہیں۔ حالانکہ وہ سب پر نگران اور سب کا ذمہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام گناہوں کو معاف کرنے والا اور ان کے جرائم سے درگزر کرنے والا ہے۔ چاہیے تو یہ کہ ہر انسان ایسے مہربان کو اپنا کارساز اور خیرخواہ مانے۔ مگر مشرک کی حالت یہ ہے کہ وہ ” اللہ“ بخشنہار اور مہربان کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کارساز اور خیر خواہ سمجھتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر نگران اور اس کی نیّت و عمل سے آگاہ ہے۔ اے رسول (ﷺ) ! آپ اپنا کام کرتے جائیں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنایا ہے۔ رسول کا کام لوگوں کو حق کا پیغام دینا ہے منوانا اس کی ذمہ داری نہیں۔ نبی کریم (ﷺ) صبح و شام پوری جانفشانی اور اخلا ص کے ساتھ لوگوں کو توحید اور دین حق کی دعوت دیتے۔ مگر مشرکین کی حالت یہ تھی کہ وہ کفر و شرک میں آگے بڑھے جارہے تھے۔ اس صورت حال پر آپ (ﷺ) افسردہ اور دل گرفتہ ہوجاتے۔ جس پر آپ کی طبیعت مضمحل ہوجاتی۔ اس پر آپ کو تسلی دی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کا ابلاغ کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ہے کسی پر پاسبان اور چوکیدار مقرر نہیں کیا۔ قرآن مجید نے مشرکین کے لیے کئی بار یہ لفظ استعمال کیا ہے کہ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا اولیاء سمجھتے ہیں۔ ولی کی جمع اولیاء ہے جس کا معنٰی خیر خواہ اور دلی دوست ہے۔ مفسرین نے ولی کے مختلف معنٰی و مفہوم بیان کیے ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔ 1 ۔جس کے کہنے پر آدمی چلے، جس کی ہدایات پر عمل کرے، اور جس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کی پیروی کرے۔ (النساء : 119، الاعراف : 3، 27، 30) 2 ۔جس کی راہنمائی پر آدمی اعتماد کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اسے صحیح راستہ بتانے اور غلطی سے بچانے والا ہے۔ (بنی اسرائیل : 97، الکہف : 17، 50، الجاثیۃ:19) 3 ۔جس کے متعلق آدمی عقیدہ رکھے کہ میں دنیا میں خواہ کچھ کرتا رہوں وہ مجھے اس کے برے نتائج سے بچالے گا۔ (النساء : 123، 173، الانعام : 51، الرعد : 37، العنکبوت : 22، الاحزاب : 65، الزمر :3) 4 ۔جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ وہ دنیا میں ما فوق الفطرت طریقے سے اس کی مدد کرتا ہے، آفات و مصائب سے اس کی حفاظت کرتا ہے، اسے روزگار دلواتا ہے، مرادیں برلاتا ہے اور ہر طرح کی حاجتیں پوری کرتا ہے۔ (ہود : 20، الرعد : 16، العنکبوت :41) بعض مقامات پر قرآن مجید میں ولی کا لفظ ان میں کسی ایک معنٰی میں استعمال کیا گیا ہے اور بعض مقامات پر اس کے سارے ہی مفہوم مراد ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ کے سوا دوسروں کو ولی بنانے سے مراد مذکورہ بالا چاریا کسی ایک معنٰی میں ان کو اپنا سرپرست بنانا اور حامی ومددگار سمجھنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیوی وسائل کے تحت ایک حد تک انسان کو ایک دوسرے کا خیر خواہ اور کارساز بنایا ہے۔ لیکن یہ کارسازی اور خیر خواہی انسان کے اپنے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو عام انسان تو درکنار جنم دینے والی ماں بھی اپنی اولاد کی خیر خواہی اور اس کی چارہ جوئی نہیں کرسکتی۔ ماں کے دل سے رحم کا جذبہ ختم ہوجائے تو اپنے ہی لخت جگر کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ ماں بیماری کی وجہ سے لاچار ہوجائے تو جگر گوشے کو دودھ پلانا تو درکنار اسے آنکھیں کھول کر دیکھ بھی نہیں سکتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا نتیجہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کی چارہ جوئی کرتا ہے۔ لہٰذاحقیقی اور بنیادی طور پر خیر خواہ اور کا ساز صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ لیکن مشرک اسے چھوڑ کر یا اس کے ساتھ دوسروں کو بھی اپنا چارہ گر اور خیر خواہ سمجھتا ہے۔ مسائل : 1۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا کارساز اور خیرخواہ سمجھتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر نگران اور پاسبان ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کارساز اور حقیقی خیرخواہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ 1۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ تم اس کی عبادت کرو کیونکہ وہ ہر کسی کا کارساز ہے۔ (الانعام : 102) 2۔ بے شک آپ ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود : 12) 3۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پروردگار ہے اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الزمر : 41) 4۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے اور وہی کارساز کافی ہے۔ (النساء : 132) 5۔ میرے بندوں پر شیطان کا داؤ پیچ نہیں چلے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کار ساز ہے۔ (بنی اسرائیل : 65) 6۔ وہ مشرق ومغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اسی کو کار سازمانو۔ (المزمل : 9)