وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۗ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (٣٠) (یعنی تورات) دی تھی، تو اس میں اختلاف پیدا کیا گیا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات طے نہ ہوچکی ہوتی ( کہ ان کا حساب قیامت کے دن ہوگا) تو ان کا اسی دنیا میں ہی فیصلہ کردیا جاتا، اور بے شک وہ لوگ قرآن کی صدقت کے بارے میں بڑے گہرے شک میں مبتلا ہیں
فہم القرآن : (آیت45سے46) ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لانے والوں کا صرف قرآن کے بارے میں یہ رویہ نہیں بلکہ ایسے لوگوں کا تورات کے بارے میں بھی یہی رویہ تھا۔ قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں میں سب سے جامع اور مفصّل کتاب تورات ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی۔ اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا۔ کچھ لوگ ایمان لائے اور باقی نے انکار کردیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ طے شدہ نہ ہوتا تو ان کا دنیا میں ہی فیصلہ کردیا جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے طے کر رکھا ہے کہ لوگوں کو دنیا میں اچھے، برے عمل کے لیے مہلت دی جائے۔ اور آخرت میں حساب و کتاب کیا جائے۔ اس مہلت کی وجہ سے ہی لوگوں تورات کے بارے میں اختلاف کیا اور اسی مہلت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ لوگ قرآن اور قیامت کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ بالآخر قیامت کے دن ان لوگوں سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لیکن کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوگی کیونکہ آپ کا رب اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ مکہ والوں کے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح ہوچکی تھی کہ یہ قرآن من جانب اللہ ہے اور اس کے دلائل ناقابل تردید ہیں۔ اس لیے ان کے دل میں یہ بات سخت اضطراب پیدا کیے ہوئے تھی۔ لیکن ضد کی بنا پر ایمان لانے کے لیے تیار نہ تھے۔ کیونکہ جوکتاب اللہ کو نہیں مانتا وہ یقین کی دولت سے تہی دامن ہوتا ہے۔ جو یقین کی دولت سے محروم ہوتا ہے وہ ذہنی کشمکش کا شکار رہتا ہے۔ جسے یوں بھی بیان کیا گیا ہے یہ لوگ اپنی سرکشی میں پریشان پھرتے ہیں۔ (البقرۃ:15) یہ کیفیت انسان کے لیے بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ قیامت پر یقین ہی انسان کو نیکی میں اطمینان دلاتا اور برائی سے خوف پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) اور قیامت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے گا۔ اس کے اعمال کا اسے ہی فائدہ ہوگا۔ جس نے ایمان لانے سے انکار کیا اور برے اعمال کرتا رہاوہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ (عن أبي ذر الغفاري - رضي الله عنه عَنِ النبيِّ (ﷺ)، فِيما رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أنَّهُ قالَ: يا عِبَادِي إنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ علَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فلا تَظَالَمُوا،)[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندو! یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کرنا حرام کرلیا ہے اور تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیتاہوں پس تم آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔“ مسائل : 1۔ جس طرح لوگ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اسی طرح تورات کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا۔ 2۔ کتاب اللہ اور اس کی تعلیم کے بارے میں اختلاف کرنے والے ہمیشہ اضطراب میں رہتے ہیں۔ 3۔ نیکی کا فائدہ اور برائی کا نقصان اس کے کرنے والے کو ہی ہوگا۔ 4۔ رب کریم اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ تفسیربالقرآن : رب کریم اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا : 1۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (التوبۃ: 70) 2۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (الروم : 9) 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس : 44) 4۔ قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کو اپنے روبرو پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف : 49) 5۔ قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائیگا اور کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (الانبیاء : 47) 6۔ آج کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائیگا۔ (یس : 54) 7۔ اللہ تعالیٰ بلاوجہ عذاب دینا پسند نہیں کرتا۔ (النساء : 147) 8۔ اللہ تعالیٰ ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ (النساء : 40)