سورة البقرة - آیت 35

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی (٨٧) جنت میں رہو، اور اس میں سے جتنا چاہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ (٧٩) اور اس درخت کے قریب مت جاؤ، ورنہ ظالموں (٨٠) میں سے ہوجاؤ گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : مسجود ملائکہ بننے کے بعد آدم (علیہ السلام) کے جنت میں قیام و طعام کا انتظام و انصرام اور خاص درخت سے احتیاط کا حکم۔ ارشاد ہوا کہ اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں قیام کرو اور اس درخت کے سوا تم جو چاہو کھا پی سکتے ہو۔ ہاں اگر تم اس کے قریب چلے گئے تو ظالموں کی صف میں شامل ہوجاؤ گے۔1 ۔جنت میں رکھنے کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ جنت کی سہولتوں، بہاروں اور نعمتوں کو اچھی طرح دیکھ لیں اور ان سے لطف اندوز ہولیں۔ تاکہ دنیا کی عارضی نعمتوں کو جنت کے مقابلے میں خاطر میں نہ لائیں اور دوبارہ یہاں آنے کی کوشش کریں۔ 2 ۔شاید یہ اس لیے بھی موقع دیا گیا کہ وہ آسمانی نظام کا براہ راست مشاہدہ کرسکیں تاکہ بحیثیت خلیفہ زمین کے انتظامات کرنے میں انہیں سہولت رہے۔ 3 ۔بطور آزمائش اس درخت سے اس لیے منع کیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منع کردہ امور سے بچنے کی تربیت پائیں اور غلطی ہونے کی صورت میں معذرت کا رویہ اختیار کریں۔ 4 ۔اس میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں شیطان کی عداوت اور دشمنی کا مزید مشاہدہ ہو۔ تاکہ دنیا میں جا کر شیطانی اثرات وحرکات سے بچنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہیں۔ مسائل : 1۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی دنیا میں آنے سے پہلے جنت میں رہائش پذیر ہوئے۔ 2۔ اللہ کی نافرمانی کرکے انسان ظالم ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقر آن : ظالم کون؟ 1۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الانعام :21) 2۔ شرک کرنے والا ظالم ہے۔ (لقمان :13) 3۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور ان میں خرابی پیدا کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ:114) 4۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہے۔ (الزمر :32) 5۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران :57) 6۔ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ (الانعام :21) 7۔ ظالم کی سزا جہنم ہوگی۔ (الانبیاء :29)