وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
اور اس کی نشانیوں (٢٥) میں رات اور دن، اور آفتاب و ماہتاب ہیں، لوگو ! تم آفتاب کو سجدہ نہ کرو، اور نہ ماہتاب کو، اور اس اللہ کو سجدہ کروجس نے انہیں پیدا کیا ہے، اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو
فہم القرآن : (آیت37سے38) ربط کلام : جس رب پر ایمان لانا اور اس کی توحید کی دعوت دینا ہے اس کی وحدت کے دلائل اور اوصاف۔ جس رب کی طرف لوگوں کو بلانا اور غصہ کی حالت میں شیطان سے جس رب کی پناہ چاہنا ہے۔ اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ رات اور دن سورج اور چاند اسی کے تابع فرمان ہیں۔ کیا مجال کہ ان میں سے کوئی ایک اپنے رب کی سرمو حکم عدولی کرے۔ جب رات اور دن، سورج اور چاند اس کے حکم کے تابع ہیں تو پھر چاند اور سورج کو سجدہ کرنا کیا معنٰی دارد ؟ سجدہ تو اس اللہ کو کرنا چاہیے جس نے سورج اور چاند کو پیدا کیا، رات اور دن بنائے۔ جو حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اسے سب کی بندگی چھوڑ کر صرف اور صرف ایک رب کی عبادت کرنی چاہیے۔ جو لوگ ایک رب کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں وہ متکبر ہوتے ہیں متکبروں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اپنے رب کی عبادت کا اندازہ کرنا چاہو توسنو! جو فرشتے ہمہ وقت اس کے حضور حاضر رہتے ہیں۔ وہ رات اور دن کی ہر گھڑی میں اس کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں کبھی اکتاہٹ اور تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ جو لگ اپنے رب کی بندگی نہیں کرتے یا اس کی بندگی میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ حقیقت میں وہ اپنے رب کی ذات اور اس کے حکم کے ساتھ تکبر کرتے ہیں۔ یادرہے ! کہ چاند اور سورج کی عبادت کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم چاند اور سورج کی عبادت نہیں کرتے۔ بلکہ انہیں خدا کی قدرت کا مظہر سمجھ کر اللہ کی قربت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی بات قبروں کے بچاری اور بتوں کے مجاور کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور حکم کے ساتھ تکبّر قرار دیا ہے۔ ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت چاہے مگر اسے اجازت نہ ملے اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ پھر سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب بدأ الخلق باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] (عنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ)قَالَ: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] مسائل : 1۔ رات اور دن، سورج اور چاند اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ 2۔ سورج اور چاند کو سجدہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا چاہیے جوسورج اور چاند کا خالق ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کا حکم دیا ہے جو اس کا حکم نہیں مانتا وہ تکبُّر کرتا ہے۔ 4۔ اللہ کے حضور حاضر رہنے والے فرشتے ہر وقت اس کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کرنے میں اکتاہٹ اور تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔ تفسیربالقرآن : ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد کرتی ہے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے : 1۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحدید :1) 2۔ رعد اس کی حمد وتسبیح بیان کرتی ہے۔ (الرعد : 12) 3۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : 44) 4۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ (الشوریٰ : 5)