إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ
بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارے رب (٢٠) اللہ ہے، پھر اس (عقیدہ توحید اور عمل صالح) پر جمے رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور غم نہ کرو، اور اس جنت کی خوشخبری سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا
فہم القرآن : (آیت30سے32) ربط کلام : کفار کے مقابلے میں موحّدوں کے ساتھ ملائکہ کا سلوک اور ان کا اکرام۔ جن لوگوں نے کہا کہ ہمار رب ” اللہ“ ہے پھر اس پر مرتے دم تک قائم رہے۔ ان کی موت کے وقت ان کے لیے ملائکہ آتے ہیں جو انہیں تسلی دیتے ہیں کہ غمگین اور پریشان نہیں ہونا۔ بلکہ اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں تمہارے ساتھ تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ رہیں گے۔ تمہارے لیے تمہارے رب کی طرف سے وہ سب کچھ ہے جو تمہارا دل چاہے گا اور تمہارے رب کے ہاں تمہاری مہمان نوازی ہوگی۔ ” رَبُّنَا اللّٰہُ“ سے مراد یہ نہیں کہ بس انہوں نے ایک مرتبہ کہہ دیا کہ ہمارا رب ” اللہ“ ہے اور پھر اپنی مرضی کرتے رہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ انہوں نے دل کی سچائی اور کردار کی گواہی سے مرتے دم تک ثابت کر دکھایا کہ واقعی ہمارا خالق، مالک، رازق اور حقیقی حکمران صرف ایک ” اللہ“ ہے، ہم اسی کے بندے اور غلام ہیں۔ ہمارا مال، جان، عزت و اقبال اسی کا دیا ہوا ہے اور اسی کے نام اور کام پر قربان ہوگا۔ جسے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے۔” فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت ” اللہ“ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے حکم ماننے والوں میں ہوجاؤں۔ فرما دیجیے کہ کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں؟ حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے۔“ (الانعام : 162تا164) [ العنکبوت : 1تا3] ” الف۔ لام۔ میم۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے ہیں اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا۔ حالانکہ ہم ان سے پہلے لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں۔ اللہ ضرور دیکھے گا کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔“ (عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الثَّقَفِی ِّ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قُلْ لِی فِی الإِسْلاَمِ قَوْلاً لاَ أَسْأَلُ عَنْہُ أَحَدًا بَعْدَکَ وَفِی حَدِیثِ أَبِی أُسَامَۃَ غَیْرَکَ قَالَ قُلْ آمَنْتُ باللَّہِ فَاسْتَقِمْ)[ رواہ الترمذی : کتاب الایمان، باب جامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ] ” حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات بتائیں جو مجھے آپ (ﷺ) کے بعد ابو اسامہ کی روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) کے علاوہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ آپ نے فرمایا تو کہہ! میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کر!“ (عَنْ وَّھْبِ ابْنِ مُنَبہٍِِ قِیلَ لَہٗ اَلَیسَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مِفْتَاحُ الْجَنَّۃِ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لَّیْسَ مِفْتَاحٌ اِلَّا وَلَہٗٓ اَسْنَانٌ فَاِنْ جِئْتَ بِمِفْتَاحٍ لَّہٗٓ اَسْنَانٌ فُتِحَ لَکَ)[ رواہ البخاری فی ترجمۃ الباب] ” حضرت وہب بن منبہ (رض) سے کسی نے یہ سوال کیا کیا لا الہ الا اللہ جنت کی چابی نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں؟ لیکن ہر چابی کے دندانے (پیچ) ہوا کرتے ہیں اگر تو پیچ دار چابی سے تالا کھولے گا تو کھل سکتا ہے (بصورت دیگر تیرے لیے دروازہ نہیں کھل سکتا۔) “ استقامت کی دعا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِئْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء أن القلوب ...] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (ﷺ) اکثر دعا کرتے۔ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول! ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں بھی خطرہ محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ہاں! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) کَانَ یَقُوْلُ یَا وَلِیَ الإِْسْلَامِ وَأَہْلِہٖ ثَبِّتْنِیْ حَتّٰی أَلْقَاکَ) [ رواہ الطبرانی : فی الأوسط وہوحدیث صحیح ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) دعا کرتے تھے کہ اے سلامتی کے مالک اور اس کے اہل ! مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھ۔ یہاں تک کہ تجھ سے آملوں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد عقیدہ توحید پر استقامت اختیار کرنی چاہیے۔ 2۔ جو لوگ عقیدۃ توحید پر جم جاتے ہیں ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ 3۔ صراط مستقیم پر گامزن رہنے والوں کو فرشتے تسلی اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : دین پر استقامت اختیار کرنے والوں کی جزا : 1۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : 13) 2۔ مومنوں کی استقامت دیکھ کر شیطان خود ڈر جاتا ہے۔ (الانفال : 48) 3۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں غم وحزن میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں تمہارے لیے جنت ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ: 30)