وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ
اور اہل کفر کہیں گے (١٩) اے ہمارے رب ! ذرا ہمیں ان جنوں اور انسانوں کو دکھلا دے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، تاکہ ہم انہیں اپنے قدموں تلے روند ڈالیں تاکہ وہ خوب ذلیل و رسوا ہوں
فہم القرآن : ربط کلام : جہنمیوں کا جہنم میں داخل ہونے کے بعد اپنے لیڈروں، علماء اور مرشدوں کے خلاف رد عمل۔ رب ذوالجلال سے جہنّمی مطالبہ کریں گے کہ ہمارے رب ! ہمیں جنوں اور انسانوں میں سے وہ لیڈر اور مرشد دکھلا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا اور ان کی وجہ سے ہم جہنّم میں داخل ہوئے۔ اگر وہ ہمارے ہاتھ چڑھ جائیں تو ہم انہیں اپنے پاؤں تلے روند کر سب کے سامنے ذلیل کریں گے اور کہیں گے کہ اے ذلیلو! اگر تم ہمیں گمراہ نہ کرتے تو آج ہم جہنم کی بجائے جنت میں موجیں مار رہے ہوتے۔ تفسیربالقرآن : جہنم میں لیڈر اور ان کے ور کر، پیر اور ان کے مرید، علماء اور ان کے مقتدی آپس میں جھگڑا کریں گے : 1۔ پوجنے والے اور جن کو وہ پوجتے تھے انہیں اکٹھا کیا جائے گا۔ پھر انہیں جہنم کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا۔ (الصّٰفّٰت : 22 تا 31) 2۔ تم پر اللہ کی مار تمہاری وجہ سے اس مصیبت کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔ (ص : 60) 3۔ جہنمی جہنم میں ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ (یونس : 45) 4۔ جہنمی اپنے سے پہلوں کے بارے میں کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ (الاعراف : 38) 5۔ جب وہ جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ یقیناً ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹاسکتے ہو۔ (المومن : 47) 6۔ بڑے اور تکبر کرنے والے کمزوروں سے کہیں گے کہ تم تو خودہی مجرم تھے۔ ( سبا : 32)