فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ
چنانچہ قوم عاد نے زمین میں ناحق تکبر (١١) کرنا شروع کردیا، اور کہا کہ ہم سے زیادہ قوت میں کون ہے۔ کیا انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بے شک وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے، وہ ان سے زیادہ قوی ہے، اور وہ لوگ ہماری نشانیوں کا انکار کرتے تھے
فہم القرآن : (آیت15سے16) ربط کلام : قوم عاد کا کفر اور اس کا انجام۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ ہیں۔ قوم عاد کے لوگ جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : 1۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : 69) 2۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر 6 تا 8 ) 3۔انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء : 133) 4۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء 129 تا 134) 5۔ انھوں نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے۔ (الانعام : 101) 6۔ قوم ثمود آخرت کو جھٹلانے والے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون : 33) 7۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا اور کوئی جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون : 37) 8۔ قوم عاد اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حم ٓالسجدۃ : 15) قوم عاد کے کفر کو اللہ تعالیٰ نے تکبّر قرار دیا ہے۔ بے شک کفر کرنے والا بول چال اور معاملات میں کتنا ہی بااخلاق کیوں نہ ہو حقیقت میں وہ متکبر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی بات کو ترجیح دینے کی بجائے اپنے مفاد اور نظریات کو مقدّم سمجھتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کافر اور مشرک کو متکبّر قرار دیا ہے۔ قوم ثمود نے اس لیے تکبّر کیا تھا وہ سمجھتے تھے کہ جسمانی قوت اور دنیوی ترقی کے اعتبار سے ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ حالانکہ انہیں غور کرنا چاہیے تھا کہ جس ” اللہ“ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ کتنا قوت والا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کیا۔ جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کچھ دن منحوس بنا دئیے ان میں زبردست آندھیاں چلائیں۔ مسلسل آندھی اور بادوباراں کے طوفان کے ذریعے دنیا میں ذلّت کی موت مرے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہوگا اور انہیں کسی طرف سے کوئی مدد نہیں مل سکے گی۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی دن اور چیز فی نفسہٖ منحوس پیدا نہیں کی۔ منحوس ایام سے مراد جن ایام میں قوم ثمود پر عذاب نازل کیا گیا۔ وہ دن قوم ثمود کے لیے منحوس ثابت ہوئے۔ ( قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا عَدْوٰی وَلَا طِیرَۃَ وَ لَا ھَامَۃَ وَلاَ صَفَرَ وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ) [ رواہ بخاری : بَابُ الْجُذْامِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا‘ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں۔ بد شگونی کی بھی نہیں ہے۔ نہ الوبد روح ہے اور نہ صفر کا مہینہ نحوست والا ہے۔ اور کوڑھی شخص سے اس طرح بھاگوجس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔“ قوم عاد پر ” اللہ“ کے عذاب کی مختلف صورتیں : 1۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ : 7) (الشعراء : 20) 2۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : 24) 3۔ آندھیوں نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ: 7) 4۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : 41، 42) 5۔ قوم عاد کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : 72) مسائل : 1۔ قوم عاد اپنی طاقت کی وجہ سے متکبّر ہوگئی۔ حالانکہ جس ذات نے انہیں پیدا کیا وہ زیادہ طاقت ور ہے۔ 2۔ قوم عاد نے تکبّر کی بنیاد پر اپنے رب کی ذات اور اس کے ارشادات کا انکار کیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد پر شدید آندھیاں چلائیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عادکودنیا میں ذلیل کیا اور آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ 5۔ قوم عاد کی کوئی بھی مدد نہ کرسکا۔ 6۔ قیامت کے دن بھی قوم عاد کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ تفسیربالقرآن : قوم عاد کی تباہی کا ایک منظر : 1۔ قوم عاد کی تباہی کا سبب رسولوں کی نافرمانی تھی۔ (ھود : 59) 2۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ: 6) 3۔ قوم عاد نے اپنے رسول کو جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : 139) 4۔قوم عاد بڑے سفاک اور ظالم لوگ تھے ۔(النجم:52) 5۔ (الحاقۃ : 7) (الشعراء : 20) (الاعراف : 72) (الذاریات : 41، 42) (الاحقاف : 24)(القمر:20،19)