قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان (٥) ہوں، مجھے وحی بھیجی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود صرف ایک ہے، پس تم سیدھے اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ، اسی سے مغفرت طلب کرو، اور ویل ہے مشرکوں کے لئے
فہم القرآن : (آیت6سے9) ربط کلام : قرآن مجید کو اپنے لیے بوجھ قرار دینے والوں کو نبی محترم (ﷺ) کا جواب۔ جو شخص گمراہی اور اپنی جہالت کا اعتراف کرنے کے باوجود اس پر اترائے۔ اس کے ساتھ جھگڑنے یا اس پر مزید وقت صرف کرنے کی بجائے اس سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔ اسی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (ﷺ) سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے فرما دیں کہ بحیثیت انسان میں بھی تمہارے جیسا ایک بشر ہوں۔ فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول منتخب کیا اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم پر واضح کروں کہ ہر قسم کی عبادت کے لائق صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ اس کا حکم ہے کہ ادھر ادھر کے راستوں کو چھوڑ کر صرف اسی کے راستے پر پکے ہوجاؤ۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگو ! اور کفر و شرک سے تائب ہوجاؤ ! یاد رکھو ! کہ مشرکین کے لیے ویل ہے۔ ویل سے مراد افسوس اور جہنّم ہے۔ ان کے لیے بھی ویل ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ جو ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جو نہ کم ہوگا اور نہ ہی ختم ہوگا۔ آپ (ﷺ) سے آپ کی بشریت کا اعلان کروانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ نبی کا کام حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں کسی کو ہدایت دینا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا اگر تم نے اپنے لیے گمراہی کو پسند کرلیا ہے تو پھر میں کیا کرسکتا ہوں ؟ بحیثیت انسان میرے ذمّہ حق بات پہنچانا ہے کسی کو ہدایت دینا میرے بس کی بات نہیں۔ البتہ یہ بات یادرکھوکہ مشرک اور وہ لوگ بھی جہنّم میں جائیں گے جو زکوٰۃ اور آخرت کے منکر ہیں۔ اکثر اہل علم نے یہاں لفظ زکوٰۃ کا معنٰی شرک سے پاک ہونا مراد لیا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ مَامِنْ رَجُلٍ لَا یُؤَدِّیْ زَکَاۃَ مَالِہٖ إِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ عُنُقِہٖ شُجَاعًا ثُمَّ قَرَأَ عَلَیْنَا مِصْدَاقَہُ مِنْ کِتَاب اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ İوَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖĬ الآیۃَ) [ رواہ الترمذی : کتاب : تفسیرالقرآن، باب ومن سورۃ آل عمران] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کو نبی کریم (ﷺ) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا مال اس کی گردن میں گنجا سانپ بنا کر ڈالے گا۔ پھر آپ نے کتاب اللہ سے اس آیت کی تلاوت کی ۔“ مسائل : 1۔ نبی اکرم (ﷺ) بشر تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرا کوئی الٰہ نہیں۔ 3۔ جو لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی کا خیال نہیں رکھتے یقیناً وہ آخرت کے انکاری ہیں۔ 4۔ ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کے لیے دائمی اجر وثواب ہے۔ تفسیر بالقرآن : تمام انبیاء (علیہ السلام) بشر تھے : 1۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا اقرار کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : 11) 2۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف : 109) 3۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر ہی تھے۔ (النحل : 43) 4۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ تو ہماری طرح بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء : 186) 5۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون : 24) 6۔ نہیں ہے تو مگر ہمارے جیسا بشر کوئی نشانی لاؤ اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء : 154) 7۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جیسا تم کھاتے ہو، ویسا وہ کھاتا ہے۔ (المومنون : 33) 8۔ آپ (ﷺ) اعلان فرمائیں کہ میں تمہارے جیسا انسان ہوں۔ (الکہف : 110) 9۔ نبی آخر الزماں (ﷺ) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔ (حٰمٓ السجدۃ: 6)