سورة فصلت - آیت 4

بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جو خوشخبری (٤) دینے والا اور ڈرانے والا ہے، لیکن اکثر لوگوں نے اس سے منہ پھیر لیا، اور اسے سنتے ہی نہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت4سے5) ربط کلام : قرآن مجید کے نزول اور نبی (ﷺ) کی بعثت کا مقصد نیک لوگوں کو خوشخبری سنانا اور بروں لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے نزول قرآن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے نیک لوگوں کو ان کے بہتر انجام کی خوشخبری دی جائے اور برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا جائے۔ قرآن مجید نے متعدد مقامات پر نبی (ﷺ) کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے یہی بات بیان فرمائی ہے کہ آپ (ﷺ) کی تشریف آوری کا مقصد حقیقی ایمان اور صالح کردار رکھنے والوں کو دنیا اور آخرت کی خوشخبری سنانا اور باطل عقائد اور برا کردار رکھنے والوں کو ان کے بھیانک انجام سے ڈرانا ہے۔ جسے آپ (ﷺ) نے پورے خلوص اور جانفشانی کے ساتھ کھول کر بیان کردیا۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے اعراض کیا اور آپ کی بات سننے کے لیے تیارنہ ہوئے۔ نہ صرف سننے کے لیے تیارنہ ہوئے بلکہ کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ جس بات کی آپ دعوت دیتے ہیں اس کے بارے میں ہمارے دلوں پر پردے پڑچکے ہیں۔ ہمارے کان اسے سننے سے بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک پردہ حائل ہوچکا ہے۔ تم اپنا کام کرو اور ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ مکہ کی غالب اکثریت کا یہی رویہّ تھا اس لیے انہوں نے اپنے بارے میں یہ الفاظ استعمال کیے۔ اس کے دو مفہوم بنتے ہیں۔ 1۔ تم دعوت دینے سے باز آنے والے نہیں اور ہم مرتے دم تک آپ کی مخالفت چھوڑنے والے نہیں۔ 2۔ تم اپنا کام کرو اور ہم اپنا کام کریں گے۔ یعنی تم اپنے طریقے کے مطابق رب کی عبادت کرو ہم اپنے طریقے کے مطابق عبادت کریں گے۔ سرداران قریش دعوت اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے۔ مگر ناکام ہوئے بالآخر انہوں نے یہ ہتھکنڈا استعمال کیا کہ آپ (ﷺ) اور ان کے درمیان سمجھوتہ ہوجائے۔ ایک دن رسول (ﷺ) حرم کے ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے اور دوسرے گوشہ میں چند سرداران قریش بیٹھے ہوئے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ ایک معزز قریشی سردار، نہایت بہادر اور فطرتاً نیک دل انسان تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں محمد (ﷺ) کے سامنے کچھ باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ وہ ان میں سے ایک نہ ایک ضرور مان لے گا۔ اگر اس نے میری بات قبول کرلی تو ہم اس مصیبت سے نجات حاصل کرلیں گے۔ اس کے ساتھیوں نے کہا : ابو الولید ! آپ یہ کام ضرور کریں۔ چنانچہ عتبہ وہاں سے اٹھ کر رسول اکر (ﷺ) کے پاس آکر کہنے لگا۔ بھتیجے! قوم میں جو تفریق پیدا ہوچکی ہے آپ اسے جانتے ہیں۔ میں چند باتیں پیش کرتاہوں ان میں سے جو چاہو پسند کرلو۔ مکہ کی حکومت چاہتے ہو یا کسی بڑے گھرانے میں شادی یا مال و دولت ؟ اور اگر آپ کے پاس کوئی جن بھوت آتا ہے تو اس کے علاج کی بھی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ مگر آپ اپنی دعوت سے باز آجائیں۔ رسول اللہ (ﷺ) عتبہ کی باتیں سنتے رہے۔ جب عتبہ خاموش ہوگیا تو آپ نے فرمایا۔ اب میرا جواب سن لیں آپ نے سب باتوں کے جواب میں اسی سورۃ کی ابتدائی چند آیات تلاوت فرمائیں۔ جب آپ اس آیت پر پہنچے تو عتبہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اس نے آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اسے یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ عذاب اسی وقت نہ اتر پڑے پھر وہ اٹھ کراپنے ساتھیوں کے پاس آکر کہنے لگا۔ محمد (ﷺ) جو کلام پیش کرتا ہے وہ شاعری نہیں۔ بلکہ کلام ربانی ہے تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس میں تمہاری ہی عزت ہے اور اگر وہ خود ہی ختم ہوگیا تو یہی تم چاہتے ہو۔ اس کے ساتھیوں نے کہا : ابو الولید ! معلوم ہوتا ہے کہ تم پر بھی اس کا جادو چل گیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) مسائل : 1۔ اللہ کے رسول ایمانداروں کو خوشخبری دینے اور دوسروں کو ڈرانے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ 2۔ کفار فخر و غرور اور جہالت کی بنیاد پر کہتے تھے کہ ہمارے دلوں پر پردہ، کانوں پر بوجھ اور تیرے اور ہمارے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی ہوچکی ہے۔ 3۔ لوگوں کی اکثریت حقیقت سننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔