يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا کر سود (92) نہ کھاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ
فہم القرآن : (آیت 130 سے 133) ربط کلام : سود خوری آدمی میں لالچ پیدا کرتی ہے۔ احد میں درّہ چھوڑنے کے پیچھے لالچ ہی کار فرما تھا۔ حرمت سود سے پہلے بعض صحابہ بھی اس کام میں ملوّث تھے۔ جس کے منفی اثرات کا نتیجہ تھا کہ جونہی درّے پر مامور اصحاب نے مجاہدین کو مال غنیمت لوٹتے ہوئے دیکھا تو اپنے کمانڈر سے بے قابو ہو کر غنائم اکٹھا کرنے پر ٹوٹ پڑے۔ اس اخلاقی کمزوری کو دور کرنے کے لیے حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے سود کو چھوڑ دو تاکہ تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکو اور اس آگ سے ڈرو جو اللہ کے حکم کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ بغاوت اور انکار کی روش اختیار کرنے کی بجائے ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی شفقت و مہربانی نازل کرتا رہے۔ دنیا کے مال کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور جنت کے حصول کے لیے جلدی کرو۔ دنیا کا مال عارضی، اس کی سہولتیں ناپائیدار‘ یہاں کے بنگلے اور محلاّت مسمار اور دنیا کے باغ و بہار ویرانوں میں تبدیل ہونے والے ہیں جبکہ جنت کے باغات سدا بہار اور اس کی نعمتیں لا محدود اور ہمیشہ رہنے والی ہیں جو اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے اور جنت کی طرف سبقت لے جانے کا حکم دیا ہے۔ جس معاشرے میں نیکی اور اہم مقصد کے لیے آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوجائے وہ معاشرہ اور قوم بالآخر مردگی کا شکار ہوجایا کرتی ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اپنی منزل کے حصول کے لیے نئے جذبوں اور تازہ ولولوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے اس لیے قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ترغیب دی ہے کہ اس مقصد کے لیے آگے بڑھو اور بڑھتے ہی چلے جاؤ۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا مائَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَأُوْا إِنْ شِئْتُمْ ﴿وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ﴾) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ گھوڑے پر سوار شخص اس کے سائے میں سو سال تک چل سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو ( اور سائے ہیں لمبے لمبے)۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب فی صفۃ خیام الجنۃ .....] ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے پاس وہی جائے گا دوسرا کوئی کسی کو نہ دیکھ سکے گا۔“ مسائل : 1۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے سود خوری چھوڑ دینا چاہیے۔ 2۔ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ 3۔ اللہ کے نافرمان اور سود خوروں کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے۔ 4۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی ہوتی ہے۔ 5۔ اللہ کی بخشش اور اس کی جنت کے لیے جلدی کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اطاعت رسول (ﷺ) کے فائدے : 1۔ اللہ کی شفقت ومہربانی حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران :132) 2۔ اللہ کی محبت اور بخشش حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران :31) 3۔ اطاعت رسول (ﷺ) سے اعمال ضائع ہونے سے محفوظ ہوتے ہیں۔ (محمد :23) 4۔ دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ (الاحزاب :71) 5۔ قیامت کے دن انبیاء، صدیقوں، شہداء اور صلحاء کا ساتھ نصیب ہوگا۔ (النساء :69)