سورة غافر - آیت 77

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۚ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس آپ صبر (٤١) کیجیے، بے شک اللہ کا وعدہ برحق ہے، پھر یا تو ہم آپ کو اس عذاب کا بعض حصہ دکھلا دیں گے جس کا ہم نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے، یا ہم آپ کو (اس کے پہلے ہی) اٹھا لیں گے، تو ان سب کو ہمارے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت77سے78) ربط کلام : ٹھوس دلائل اور پُر خلوص کوشش کے ساتھ سمجھانے کے باوجود جو لوگ نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اے نبی (ﷺ) آپ کو صبر سے کام لینا اور اپنے رب کے حکم کا انتظار کرنا چاہیے۔ نبی کریم (ﷺ) اپنا کام اور آرام چھوڑ کر دن، رات اس کوشش میں لگے رہتے کہ لوگ ہدایت پاجائیں۔ لیکن آپ کے مخاطب ہدایت حاصل کرنے کی بجائے آپ (ﷺ) کا مذاق اڑاتے۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں پر ہر قسم کی زیادتیاں کرتے۔ جس پر آپ (ﷺ) کو رنج پہنچتا اور آپ سوچتے کہ یہ کیسے ناہنجار لوگ ہیں کہ میں کسی مفاد کے بغیر ان کے لیے رات، دن ایک کیے ہوئے ہوں۔ لیکن یہ ” اللہ“ کا قرآن سمجھنے کی بجائے اس سے مزید دور ہورہے ہیں۔ اس پر آپ (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ صبر وحوصلہ کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں۔ اگر یہ لوگ اپنی روش سے باز نہ آئے تو ہم آپ کی زندگی میں وہ کچھ دکھائیں گے جس کا ان سے وعدہ کرتے ہیں یا پھر آپ کی وفات کے بعد انہیں دکھایا جائے گا۔ بالآخر انہوں نے ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ وہاں اپنے کیے کا پورا انجام پالیں گے بلاشبہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے۔ جن میں بعض کے واقعات ہم نے آپ کے سامنے بیان کر دئیے ہیں اور بعض کے حالات ہم نے بیان نہیں کیے۔ کسی رسول کو یہ اختیار نہ تھا کہ وہ کوئی معجزہ اپنی مرضی سے پیش کرسکے۔ ہاں جس وقت ” اللہ“ کا حکم یعنی اس کا عذاب آئے گا تو ان کا قضیہ پورے عدل و انصاف کے ساتھ چکا دیا جائے گا۔ البتہ باطل کو اختیار کرنے والے ہر صورت دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کے ساتھ اپنا وعدہ آپ کی زندگی میں اس طرح پورا فرمایا کہ آپ کے بڑے بڑے دشمن بدر کے میدان میں قتل ہوئے اور باقی مسلمان ہوگئے۔ کچھ آپ کی حیات مبارکہ میں اور باقی یہودی اور عیسائی خلفائے راشدین کے دور میں سرنگوں ہوگئے۔ اس طرح اسلام سربلند ہوا اور کفر و شرک ذلیل ہوئے۔ یہاں تک پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے واقعات بیان کرنے کا مقصد ہے ان میں آپ (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کے لیے راہنمائی اور تسلی کا سامان ہے۔ نوح (علیہ السلام) کو دیکھیں ساڑھے نو سو سال دن، رات محنت کرتے رہے لیکن چند لوگ مسلمان ہوئے بالآخر ان کے مخالفین کو ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی جد وجہد پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو کس طرح بچایا اور کامیاب فرمایا۔ ان کے مخالف اپنی سازشوں اور شرارتوں میں کیسے ناکام اور ذلیل ہوئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات پر توجہ فرمائیں کہ ان پر اور ان کے ساتھیوں پر کتنا اور کتنی مدت تک ظلم ہوتا رہا۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) ہمت نہ ہارے اور ان کے ساتھیوں نے بھی صبر کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھ دیا۔ نتیجتاً فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ ذلّت کی موت مرے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کامیاب ٹھہرے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنے رب کی طرف سے عطا کردہ عظیم معجزے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کیے لیکن انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ صرف جھٹلایا بلکہ اپنی طرف سے انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو آسمانوں پر اٹھاکران کی مد فرمائی اور ان کے دشمنوں کو ہمیشہ کے لیے ناکام اور ذلیل کردیا۔ یقین رکھیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم نافذہوتا ہے تو اہل باطل دنیا میں بھی ناقابل تلافی نقصان پایا کرتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو لامحدود اور لامتناہی ہے۔ (عن خباب بن الارت شَكَوْنا إلى رَسولِ اللَّهِ() وهو مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً له في ظِلِّ الكَعْبَةِ فَقُلْنا: ألا تَسْتَنْصِرُ لنا ألا تَدْعُو لَنا؟ فقالَ: قدْ كانَ مَن قَبْلَكُمْ، يُؤْخَذُ الرَّجُلُ فيُحْفَرُ له في الأرْضِ، فيُجْعَلُ فيها، فيُجاءُ بالمِنْشارِ فيُوضَعُ علَى رَأْسِهِ فيُجْعَلُ نِصْفَيْنِ، ويُمْشَطُ بأَمْشاطِ الحَدِيدِ، ما دُونَ لَحْمِهِ وعَظْمِهِ، فَما يَصُدُّهُ ذلكَ عن دِينِهِ، واللَّهِ لَيَتِمَّنَّ هذا الأمْرُ، حتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِن صَنْعاءَ إلى حَضْرَمَوْتَ، لا يَخافُ إلَّا اللَّهَ، والذِّئْبَ علَى غَنَمِهِ، ولَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ.) [ رواہ البخاری : باب علامات النبوۃ] ” حضرت خباب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے رسول اللہ (ﷺ) سے اس وقت شکایت کی جب آپ (ﷺ) کعبہ کے سایہ میں چادر لپیٹ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کی آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے۔ آپ اپنے چہرے سے چادر ہٹاکر بیٹھ گئے اور فرمایا اللہ کی قسم تم سے پہلے لوگوں کو پکڑا جاتا اور ان کو ایک گھڑھے میں گاڑ کر اس کے سر پر آرا چلا کر دو ٹکڑے کردیا جاتا۔ وہ پھر بھی اپنے دین پر قائم رہتا اس کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچ لیا جاتا لیکن پھر بھی دین سے منحرف نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب فرمائے گا کہ ایک سوار صنعا سے لے کر حضرموت تک تن تنہا سفر کرے گا۔ اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا اسے صرف اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا خوف ہوگا، لیکن تم عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔“ مسائل : 1۔ مسلمان کو مصیبت کے وقت صبر کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دنیا میں بھی مدد کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو کامیاب فرمایا اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل کیا۔ 4۔ کسی نبی نے کوئی معجزہ اپنی مرضی سے پیش نہیں کیا۔ 5۔ اہل باطل دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھایا کرتے ہیں۔ 6۔ بالآخر سب نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیربالقرآن : صبر کا حکم اور اس کا اجر : 1۔ صبر کیجئے اللہ نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (ھود : 115) 2۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ( البقرۃ : 153) 3۔ صبر کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (المومنون : 111) 4۔ صبر کرنے والے کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : 24) 5۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ ( الفرقان : 75) 6۔ صبر کرنے والے بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ ( الزمر : 10) 7۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ (الروم : 60) 8۔ اگر تم صبر کرو تو صبر کرنے والوں کے لیے بہترین اجر ہے۔ (النحل : 126) 9۔ صبر کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال : 46) 10۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کیجیے۔ (الدھر : 24) 11۔ بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: 249)