هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم لوگ بندگی کو اس کے لئے خالص کرکے اس کو پکارو، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہان کا پالنہار ہے
فہم القرآن : (آیت65سے66) ربط کلام : جس ” اللہ“ سے مانگنے اور صرف اس کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کی یہ صفت ہے کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جس ” اللہ“ نے زمین کو باعث قرار، آسمان کو چھت بنایا اور لوگوں کی بہترین شکلیں بنائیں اور ان کے لیے پاکیزہ رزق کابندوبست فرمایا وہ بابرکت ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔” اَلْحَیُّ“ کا معنٰی ہے ہمیشہ ہمیش زندہ رہنے والا اور جب تک چاہے مخلوق کو زندہ رکھنے والا۔ اس کے سوانہ کوئی ہمیشہ سے زندہ ہے اور نہ رہے گا اور نہ اس کے سوا زمین و آسمانوں، اور انسان کی شکل و صورت بنانے والا ہے اور نہ ہی اس کے سوا کوئی رزق دینے والا ہے۔ وہ اپنی صفات اور ذات میں اکیلا ہے لہٰذا اس کی اسی طرح عبادت کرنی چاہیے۔ جس طرح اس نے حکم دیا ہے۔ اس لیے تمام تعریفات اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ اے نبی (ﷺ) ! آپ فرما دیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کی ہرگز عبادت نہ کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ اس لیے کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ٹھوس دلائل آچکے ہیں کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنا۔ اسی بنا پر مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں کائنات کے رب کی بندگی کرتا رہوں۔ اس مقام پر توحید کابیان آیت 60سے شرو ع ہوا۔ جس میں دعا کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہاں ” اَعْبُدُ“ اور ” تَدْعُوْنَ“ کے الفاظ کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے بالواسطہ یا بلا واسطہ مانگنا جائز نہیں۔ کیونکہ صرف ایک اللہ ہی پوری کائنات کا رب ہے۔ اس کے سوا کسی سے مانگنے اور اس کی عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ [ یونس : 106، 107] ” اور اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کو مت پکاریں جو نہ آپ کو نفع دے سکتی ہے اور نہ آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اگر تو نے ایسا کیا تو بلاشبہ اس وقت ظالموں میں سے ہوجائے گا۔ اگر اللہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کو رد کرنے والا نہیں۔ وہ اسے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے مستفید کرتا ہے اور وہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔“ مسائل : 1۔ ” اللہ“ ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ 2۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صرف اسی کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ 4۔ اللہ ہی پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ لہٰذا اسی کی تابعداری کرنی چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو اور آپ کے ذریعے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے تفسیربالقرآن : ” اللہ“ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارنا چاہیے : 1۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (یونس : 104) 2۔ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی اللہ کے سوا تم عبادت کرتے ہو۔ (الانعام : 56) 3۔ کیا میں اللہ کے سوا ان کو پکاروں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (الانعام : 71) 4۔ جن کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل : 20) 5۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھارے جیسے بندے ہیں۔ (الاعراف : 194) 6۔ اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (یونس : 106)