سورة غافر - آیت 36

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَّعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور فرعون نے کہا، اے ہامان ! میرے لئے ایک اونچا محل (٢١) بناؤ، شاید کہ میں ان راستوں تک پہنچ جاؤں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت36سے37) ربط کلام : مرد حق کے خطاب کے مقابلے میں فرعون کا ردّ عمل۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مرد حق کے مدلّل اور مؤثر خطاب کے بعد فرعون ہدایت قبول کرتا۔ لیکن اس نے اپنے خصوصی مشیر ہامان کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک بلندو بالا عمارت تعمیر کی جائے تاکہ میں اس کے ذریعے آسمان کے دروازوں تک پہنچ جاؤں اور دیکھوں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا الٰہ کہاں بیٹھا ہوا ہے۔ میں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔ فرعون کے تکبّر اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے اس کی رسی کھلی چھوڑ دی گئی۔ جس بنا پر اسے اپنی غلط سوچ، سیاست اور کردار بہترین دکھائی دیتا تھا۔ اسی بنا پر وہ سیدھے راستہ سے روک دیا گیا۔ فرعون کا ہر قدم اس کے لیے تباہی کا سبب ثابت ہوا۔ جسے اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہدایت سے روک دے پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مردِحق اپنی قوم اور حکومت کے ایوانوں میں بہت اثر رسوخ رکھنے والا تھا۔ جس بنا پر فرعون نے نہ تو اسے کسی قسم کی دھمکی دی اور نہ ہی اس کے خطاب کا سخت جواب دیا۔ اس لیے اب بھی موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدف تنقید بنارہا ہے۔ چنانچہ کہنے لگا زمین میں تو مجھے موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا دکھائی نہیں دیتا۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ آسمان میں کہاں رہتا ہے۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا مل گیا تو پوچھیں گے کہ جناب نے ہمارے پاس موسیٰ جیسا رسول بھیجا ہے۔ کہ جسے بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں آتا کہ بادشاہ کے حضور کس طرح فریاد کی جاتی ہے۔ کیا تجھے موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور آدمی نہیں مل سکا۔ ایسے ہی بیہودہ خیالات کا اظہار اہل مکہ بھی کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی اللہ نے کسی کو نبی بنانا ہوتا تو مکہ یا طائف کے سرداروں میں سے کسی کو نبی بناتا۔ پہلی دفعہ لفظ اسباب سے مراد وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے وہ آسمان تک پہنچنا چاہتا تھا اور دوسری مرتبہ اسباب سے مراد آسمان کے دروازے ہیں۔ جس شخص کو باربار اس کی گمراہی سے آگاہ کیا جائے اور وہ توبہ کرنے کی بجائے گمراہی کو اپنے لیے بہتر سمجھے تو ایسے شخص کو کون ہدایت دے سکتا ہے۔ ایسے شخص کو اس کے گناہوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی حد ہوتی ہے جس بنا پر اللہ تعالیٰ اس کے دل پر گمراہی کی مہر لگا دیتا ہے۔ مسائل: 1۔ فرعون کو اپنے برے اعمال اچھے دکھائی دیتے تھے۔ 2۔ جسے اپنے برے اعمال اچھے دکھائی دیں اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ 3۔ فرعون کے بد ترین اعمال کی وجہ سے اسے ہدایت سے روک دیا گیا۔ کیونکہ اس کا ہر قدم گمراہی اور تباہی کی طرف اٹھتا تھا۔ تفسیربالقرآن: کن لوگوں کے برے اعمال ان کے لیے خوبصورت بنادئیے جاتے ہیں : 1۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کر دکھاتا ہے۔ (الانعام :43) 2۔ اکثر مشرکین کے لیے قتل اولاد کا عمل مزّین کردیا۔ (الانعام :137) 3۔ شیطان نے اللہ کے راستہ سے روکنے والوں کے برے اعمال کو مزین کردیا اور کہا تم ہی غالب ہو گے۔ (الانفال :48) 4۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) سے پہلے کئی امتوں کی طرف رسول بھیجے شیطان نے ان کے بد اعمال کو مزّین کردیا۔ (النحل :63) 5۔ اللہ تعالیٰ کے سوا سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کوشیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (النمل :24) 6۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت :38) 7 ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (الانعام :109) 8۔ حد سے تجاوز کرنے والوں کے اعمال ان کے لیے مزّین کردیے جاتے ہیں۔ (یونس :12)