سورة البقرة - آیت 34

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ (٧٤) کرو، تو سب نے (٧٥) سجدہ کیا، مگر ابلیس (٧٦) نے انکار کردیا، اور استکبار سے کام لے، اور وہ (اللہ کے علم میں) کافروں (٧٧) میں سے تھا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : خلیفہ کی علمی برتری اور شان کے سامنے کائنات کی اعلیٰ اور مقدس ترین مخلوق ملائکہ کو جھکنے کا حکم۔ سجدہ کا حکم ہوتے ہی تمام ملائکہ آدم (علیہ السلام) کے حضور سر بسجود ہوئے لیکن شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا احترام و مقام دیکھ کر حسد اور تکبر کی وجہ سے سجدہ ریز ہونے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ وہ جرم پر جرم اور گستاخی پر گستاخی کرتا چلا گیا۔ اس جگہ اجمال ہے جبکہ دوسرے مقامات پر شیطان کے انکار کی تفصیلات یوں بیان کی گئی ہیں۔ ﴿ وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلآئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا۔ (الاسراء :61) ” اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا اور اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ ﴿ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الاعراف :12) ” میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ ﴿ قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہ‘ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ﴾ (الحجر :33) ” شیطان نے کہا میں ایسا نہیں کہ انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ ﴿ قَالَ اَرَءَ یْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ لَئِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہ اِلَّا قَلِیْلًا۔ (الاسراء :62) ” شیطان کہنے لگایہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے شخصوں کے سوا اس (آدم (علیہ السلام) کی تمام اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔“ ﴿قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ (ص :82) ” کہنے لگا تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکا دوں گا۔“ حسد اور تکبر وہ بری چیز ہے کہ جس سے انسان کے تمام اعمال غارت اور بسا اوقات دنیا ہی میں ذلت و رسوائی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ سرور دو عالم {ﷺ}نے تکبر کا مفہوم اور اس کے نقصانات یوں ذکر فرمائے ہیں : (اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ) ” تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ) ” حضرت عبداللہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ نبی {ﷺ}نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ النَّبِیَّ {}قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الادب، باب فی الحسد) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ نبی {ﷺ}نے فرمایا : حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}یَقُوْلُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ الْکِبْرِیَاءُ رِدَائِیْ وَالْعَظْمَۃُ إِزَارِیْ مَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِّنْھُمَا أَلْقَیْتُہٗ فِیْ جَھَنَّمَ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب البراء ۃ من الکبر والتواضع ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تکبر میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے جو ان میں سے کوئی ایک مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو جہنم میں پھینک دوں گا۔“ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں : (عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ {رض}قَالَ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَقُلْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ یُّسْجَدَ لَہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ {}فَقُلْتُ إِنّی أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَأَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِیْ أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَھُمْ عَلَیْھِنَّ مِنَ الْحَقِّ) (رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ) ” حضرت قیس بن سعد {رض}بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو بادشاہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ اللہ کے رسول سجدے کے زیادہ لائق ہیں۔ میں نبی {ﷺ}کے پاس آیا تو میں نے عرض کی : میں نے حیرہ میں دیکھا کہ وہ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ {ﷺ}نے فرمایا : بتلائیے! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : ایسے نہ کرو اگر میں نے کسی کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دینا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کا عورتوں پر جو حق رکھا اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندوں کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔“ بریلوی مکتبہ فکر کے جید عالم پیر محمد کرم شاہ صاحب الأزھری کی نظر میں تعظیمی سجدہ حرام ہے : ” جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی وسعت علم اور اپنے عجز کا اعتراف کرلیا تو پروردگار عالم نے انہیں حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سجدہ کا لغوی معنی ہے تذلّل اور خضوع اور شریعت میں اس کا معنٰی ہے۔ ” وضع الجبھۃ علی الأرض“ پیشانی کا زمین پر رکھنا۔ بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ کا لغوی معنٰی مراد ہے کہ فرشتوں کو ادب واحترام کرنے کا حکم دیا گیا لیکن جمہور علماء کے نزدیک شرعی معنیٰ مراد ہے۔ یعنی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیشانی رکھ دیں۔ اب اس سجدہ کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ پیشانی جھکانے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس کے سامنے میں پیشانی جھکا رہا ہوں وہ خدا ہے تو یہ عبادت ہے اور یہ بھی کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں بلکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد اولین تھا ہی یہی کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور دوسروں کی عبادت سے منع کریں تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس چیز سے روکنے کے لیے انبیاء تشریف لائے اس فعل کا ارتکاب خود کریں یا کسی کو اجازت دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جس کے سامنے سجدہ کیا جارہا ہے اس کی عزت واحترام کے لیے ہو عبادت کے لیے نہ ہو تو اس کو سجدہ تحیہ کہتے ہیں۔ یہ پہلے انبیاء کرام کی شریعتوں میں جائز تھا لیکن حضور کریم {ﷺ}نے اس سے بھی منع فرمادیا۔ اب تعظیمی سجدہ بھی ہماری شریعت میں حرام ہے۔“ [ ضیاء القرآن، جلد اول‘ البقرہ :34] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انکار اور تکبر کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : متکبرین : 1۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص :74) 2۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص :39) 3۔ تکبر کرنے والے کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن :39) 4۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل :23) 5۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المومن :76)