وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں (١٣) اور کھلی دلیل کے ساتھ بھیجا
فہم القرآن : (آیت23سے25) ربط کلام : ہلاک کی جانے والی اقوام میں آل فرعون بھی شامل تھے۔ جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بڑے بڑے معجزات اور دلائل دے کر فرعون، ہامان اور قارون کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا اور جادوگر قرار دیا۔ جوں ہی موسیٰ (علیہ السلام) ہماری طرف سے حق لے کر پہنچے تو فرعون اور ان کے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ جو بھی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اسے قتل کردیا جائے اور اس کی عورتوں کو اپنے لیے باقی رہنے دیا جائے۔ حق کے مقابلے میں کفار کی منصوبہ بندیاں ہمیشہ انہیں دنیا اور آخرت کے نقصان میں زیادہ ہی کرتی ہیں۔ انسان مشکل کے وقت تدبیر اس لیے کرتا ہے کہ وہ مصیبت سے نجات پائے۔ لیکن جب انسان اپنے رب کا باغی بن جائے اور حق بات کو ٹھکراتاچلا جائے تو اس کی عقل الٹی ہوجاتی ہے۔ ایسی تدابیر کرتا ہے اور اس کے ساتھی اپنے مفاد اور اس کی خوشنودی کے لیے اسے ایسے مشورے دیتے ہیں کہ جس سے اس کی ذلت اور نقصان میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ یہی حالات فرعون اور اس کے ساتھیوں کے تھے۔ جوں ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے سامنے بڑے بڑے معجزات پیش کیے اور انہیں ٹھوس دلائل کے ساتھ اللہ کی توحید کی دعوت دی تو انہوں نے حق تسلیم کرنے کی بجائے یہ فیصلہ کیا کہ ایمان لانے والے مردوں اور ان کے بیٹوں کو قتل کیا جائے اور ان کی بیویوں اور بیٹیوں کو باقی رہنے دیا جائے۔ یاد رہے کہ فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کو قتل کرنے کی یہ دوسری مہم تھی۔ اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت بھی بنی اسرائیل کا قتل عام کیا گیا تھا۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ بہت بڑی آزمائش تھی۔[ البقرۃ:49] دنیا میں بنی اسرائیل کے علاوہ شاید ہی کوئی قوم ہو جسے اجتماعی طور پر یہ سزا دی گئی ہو کہ ان کے مردوں کو کئی سال تک قتل کیا گیا اور ان کی بہو بیٹیوں کو ہر قسم کی زیادتی کا نشانہ بنانے کے لیے زندہ رہنے دیا گیا۔ بنی اسرائیل دو مرتبہ طویل عرصہ تک اس آزمائش کا شکار ہوئے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے ساتھیوں کے مظالم سے نجات دی۔ ﴿سُلْطَانٍ مُّبِیْنٌ﴾سے مراد ایسے دلائل ہیں جنہیں سننے کے بعد آدمی کے دل میں یقین پیدا ہوجائے کہ واقعی حق یہی ہے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو پہلے دن ہی موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا اژدھا اور ید بیضا دیکھ کر یقین ہوگیا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہیں۔ وہ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوئے تھے کہ جو شخص کچھ عرصہ پہلے گرفتاری کے ڈر سے یہاں سے بھاگ نکلا تھا آج کس جرأت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہو کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمارے نظریات کے خلاف باتیں کررہا ہے۔ انہیں یہ بھی یقین ہوچکا تھا کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو ڈھیل دی گئی تو اس کے ساتھیوں میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) سے لوگوں کو دور رکھنے اور حکومت کا دبدبہ قائم کرنے کے لیے۔ فرعون نے فوری طور پر حکم جاری کیا کہ جو شخص بھی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اسے اور اس کے رشتہ داروں کو سرِعام قتل کردیا جائے۔ البتہ ان کی بیویوں اور بہو، بیٹیوں کو اپنے لیے باقی رہنے دیا جائے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بڑے بڑے معجزات اور ٹھوس دلائل دے کر فرعون اور اس کے ساتھیوں کی طرف بھیجا۔ 2۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کذّاب اور جادوگر قراردیا۔ 3۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کو سر عام قتل کرنے کی مہم چلائی۔ 4۔ فرعون نے اپنی اور اپنی قوم کی خدمت کے لیے بنی اسرائیل کی بہو بیٹیوں کو باقی رکھا۔ تفسیربالقرآن: موسیٰ (علیہ السلام) کو دیے جانے والے عظیم معجزات اور دلائل : 1۔ (یونس :75) 2۔ (المومنون :46) 3۔ (العنکبوت :39) 4۔ (الاعراف :133) 5۔ (المومن :27)