بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ المؤمن کا تعارف : یہاں سے ان سورتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جن کی ابتدالفظ ” حٰمٓ“ سے ہوتی ہے ان کو اہل علم ” حوامیم“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہر ” حٰمٓ“ کی ابتدائی آیات میں قرآن مجید کا تعارف مختلف الفاظ میں کروایا گیا ہے جس میں ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ یہ لوگوں کے لیے رحمت، برکت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ المؤمن نو رکوع اور پچاس آیات پر مشتمل ہے یہ سورۃ مبارکہ مکہ اور اس کے گردوپیش نازل ہوئی۔ ربط سورۃ: الزّمر کا اختتام اس ارشاد پر ہوا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کے پاس حاضر فرشتے اپنے رب کی تسبیح پڑھ رہے ہوں گے اور جب لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کر دئیے جائیں گے تو ہر کوئی اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی تعریف کر رہا ہوگا۔ المؤمن کی ابتدا میں یہ بتلایا گیا ہے کہ الکتاب کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے جو سب کو جاننے والا اور ہر چیز اور کام پر غالب ہونے کے باوجود لوگوں کے گناہوں کو معاف کرتا اور ان کی توبہ قبول کرتا ہے۔ وہ بڑا طاقتور اور مجرموں کو سخت سزا دینے والا ہے اس سے بڑھ کر کوئی طاقت ور نہیں اور ہر کسی نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اس کے باوجودجو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ارشادات کے بارے میں جھگڑتے ہیں ایسے لوگوں کے رہن سہن اور چال ڈھال سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے ان سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم اور بہت سے گروہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کا سخت احتساب کیا اور آخرت میں یہ لوگ جہنم رسید کر دئیے جائیں گے ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور ان کے نیک اہل خانہ کو جنت میں داخل کرے گا ان کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ مشرکوں کا حال یہ ہے جب انہیں اللہ وحدہ لاشریک کی طرف بلایا جاتا ہے تو انکار کرتے ہیں اور جب کوئی اس کے ساتھ شرک کرتا ہے تو اس کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے بے شک یہ کفار کے لیے کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ یہ اصولی دعوت پیش کرنے کے بعد آل فرعون کے مظالم کا ذکر کیا کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان بنیادی اختلاف یہی تھا۔ اس بنا پر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی برادری کا ایک شخص جس نے اب تک اپنے ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا وہ کھڑا ہوا اور اس نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے سامنے فطری دلائل اور تاریخی حقائق کے حوالے سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ جس شخص کی جان کے دشمن بن چکے ہو اس کی دعوت پر غور کرو کہ یہ تمہیں کہتا کیا ہے لیکن فرعون نے اس کی بات کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ میرے لیے ایک ایسا مینار کھڑا کیا جائے جس کے ذریعے میں آسمان پر چڑھ کر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھنا چاہتا ہوں اس پر مرد مومن نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو آخری بار سمجھایا کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی دعوت دیتے ہو۔ اگر تم میری بات کو ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو میں اپنے کام کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں جو ہر حال میں اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) اور مومنوں کو تسلی دی ہے کہ ہم اپنے بندوں کی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور آخرت میں بھی ان کے مددگار ہوں گے۔ پھر ارشاد فرمایا ہے کہ اندھا اور بینا، نیک اور بد برابر نہیں ہو سکتے لیکن نصیحت حاصل کرنے والے ہمیشہ تھوڑے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ لوگو! اپنے رب کی دعوت قبول کرو جو اس کی دعوت قبول نہیں کریں گے انہیں بہت جلد جہنم میں ذلیل کیا جائےگا۔ اللہ تعالیٰ نے سورت کے آخر میں اپنی توحید کے چھ دلائل دئیے ہیں۔ 1۔” اللہ“ ہی تمہارا رب ہے اور اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا لہٰذا اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ 2۔” اللہ“ ہی نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار دیا اور آسمان کو چھت بنایا اسی نے تمہاری شکل وصورت بنائی اور وہی تمہیں پاکیزہ رزق دیتا ہے۔ تمہارا رب بڑی برکت والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس کا حکم ہے کہ ہر حال میں صرف اسی کو پکارا جائے کیونکہ تمام تعریفات اسی کے لیے ہیں جو رب العالمین ہے۔ 4۔” اللہ“ ہی نے مٹی سے، پھر نطفہ سے، پھر لوتھڑے سے تمہیں بچے کی صورت میں پیدا کیا تاکہ تم جوان ہو کر اپنے بڑھاپے تک پہنچ جاؤ۔ کچھ کو بڑھاپے سے پہلے موت دیتا ہے اور کچھ طبعی عمر کو پہنچ کر فوت ہوتے ہیں۔ غور کرو کہ ان کاموں میں کسی اور کا عمل دخل ہے؟ 5۔” اللہ“ ہی موت وحیات کا مالک ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو ” کُنْ“ کا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ وہ کام اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ 6۔” اللہ“ نے ہی تمہارے لیے چوپائے پیدا کیے تم ان پر سواری کرتے ہو ان کا گوشت کھاتے ہو ان سے اور بھی فائدے اٹھاتے ہو۔ سورۃ المؤمن کا اختتام اس بات پر کیا کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے پہلے اس پر سچا ایمان لے آؤ۔ جب اس کا عذاب نازل ہوگا تو اس وقت تمہیں ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ کا پہلے لوگوں میں بھی یہی اصول تھا اور آئندہ کے لیے بھی یہ اصول کار فرما رہے گا۔