وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ
اور تم سب اپنے رب کی طرف رجوع ( ٣٥) کرو اور اسی کی اطاعت و بندگی میں لگے رہو، اس کے قبل کہ تم پر عذاب نازل ہوجائے، پھر کسی جانب سے تمہاری مدد نہ کی جائے
فہم القرآن: (آیت54سے58) ربط کلام : اللہ تعالیٰ غفور الرّحیم ہے لہٰذا اس کی گرفت سے پہلے پہلے اس کے حضور حاضر ہوجاؤ۔ اس انتباہ میں دنیا اور آخرت کے دونوں عذاب شامل ہیں۔ گناہگاروں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ اگر اپنے رب کی بخشش اور رحمت چاہتے ہو تو فوراً اپنے رب کی طرف رجوع کرو قبل اس کے کہ تم پر عذاب نازل ہوجائے اور تمہیں اس کی خبر نہ ہوپائے۔ اس وقت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہو کہ کاش! میں اپنے رب کے معاملے میں کوتاہی نہ کرتا اور نہ ہی اس کی آیات کو مذاق کرنے والوں میں شامل ہوتایا اس تمنا کا اظہار کرے کہ کاش! میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت پاکر متقی بن جاتا یا موت دیکھ کر کہے کہ ہائے افسوس! میرے لیے کسی طرح دنیا میں لوٹ جانے کی کوئی صورت بن جائے اور میں نیکی کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں۔ ان آیات میں اس کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے جو اللہ کے عذاب یا موت کے وقت کافر، مشرک اور مجرموں پر وارد ہوتی ہے۔ ایسے لوگ حسرت پر حسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت انہیں اپنی حسرتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی بات کو دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ (المنافقون : 11، 12) ” جو ہم نے تم کو دیا ہے اس میں کچھ خرچ کرو اس سے پہلے کہ تمہیں موت آجائے اس وقت کہنے لگو کہ اے ہمارے رب! اگر تو ہمیں تھوڑی سی اور مہلت دیتا تو ہم صدقہ کرتے اور نیک بندوں میں شریک ہوجاتے۔ جب کسی کو موت کا وقت آن پہنچے تو اللہ تعالیٰ کسی کو مہلت نہیں دیتا اور اللہ تمہارے کاموں کی خبر رکھنے والا ہے۔“ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ مِنَ السَّمَآءِ مَلَآئِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمُ الْمُسُوْحُ فَیَجْلِسُوْنَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیْٓئُ مَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ فَیَقُولُ أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ اخْرُجِیْٓ إِلَی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتُفَرَّقُ فِیْ جَسَدِہٖ فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّوْدُ مِنَ الصُّوْفِ الْمَبْلُوْلِ) [ رواہ أحمد : مسند براء بن عازب] ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب کافر کا دنیا سے رخصت ہونے اور موت کا وقت آ تا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس ٹاٹ کا لباس ہوتا ہے۔ فرشتے فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان۔ اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ ہوتی۔ فرشتے اسے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے۔“ اس لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس کے عذاب سے بچنا اور اس کی رحمت کے حقدار بننا چاہتے ہو تو رجوع الی اللہ کے لیے یکسو ہوجاؤ تمہارے رب کی رحمت بے کنار ہے اس کی بخشش کا دروازہ ہر ایک کے لیے اس کے نزع کے وقت تک کھلا ہے جو قیامت تک کھلا رہے گا۔ مگر ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب کی طرف اخلاص کے ساتھ رجوع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لیے ارشاد ہے کہ اے میرے بندو! اِدھر ادھر کی بجائے اور میرے عذاب سے پہلے پہلے صرف میری طرف رجوع کرو۔ جب میرا عذاب نازل ہوگا تو اس وقت اس کو کوئی دور کرنے والا نہ ہوگا۔ لہٰذا اس کی پیروی کرو جو بہترین چیز تمہارے رب کی طرف سے تم پر اتاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے اور اس کی رحمت اور بخشش کے حقدار ہونے کی دو صورتیں ہیں۔1 ۔اِدھر ادھر کی بجائے صرف اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ 2 ۔اس طریقہ کے مطابق جس کی وضاحت قرآن مجید میں کی گئی ہے۔ جس کے لیے ” اَحْسَنَ مَا اُنْزِلَ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ مسائل: 1۔ انسان کو ” اللہ“ کی گرفت سے پہلے توبہ کرنی چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب اچانک آیا کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب یا موت کے بعد نیکی کی حسرت کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ 4۔ نیکی اور توبہ کا موقعہ عذاب اور موت سے پہلے ہوتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر اپنے رب کے حضور توبہ کرنی چاہیے۔ تفسیربالقرآن: توبہ و استغفار کی اہمیت و فضیلت : 1۔ وہ لوگ جو جہالت کی بنا پر برے عمل کرتے ہیں اور اس کے بعد توبہ اور اپنی اصلاح کرتے ہیں اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (النحل :119) 2۔ جو شخص جرم کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرے بے شک اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (المائدۃ :39) 3۔ اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔ (التوبۃ :74) 4۔ اے ایمان والو ! خالص توبہ کرو۔ (التحریم :8) 5۔ یقیناً میں اسے معاف کردوں گا جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ (طٰہٰ:82) 6۔ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور عمل صالح کرے تو میں اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دوں گا۔ (الفرقان :70) 7۔ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے تو اللہ تمہارے چھوٹے گناہ معاف کر دے گا۔ (النساء :31) 8۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبۃ:112) 9۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ:222)