وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ
اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا (٢٤) کیا ہے، تو وہ کہیں گے انہیں اللہ نے بنایا ہے، آپ کہہ دیجیے، تمہارا کیا خیال ہے، جن معبودوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا وہ جھوٹے معبود اللہ کی دی ہوئی تکلیف کو دور کردیں گے، یا وہ مجھے اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو مجھ سے روک دیں گے، آپ کہہ دیجیے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے بھروسہ کرنے والے صرف اسی پر بھروسہ کرتے ہیں
فہم القرآن: (آیت38سے40) ربط کلام : اللہ کی توحید اور دین حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں سے ایک سوال۔ قرآن مجید نے اللہ کی توحید سمجھانے اور دین حق کی پہچان کروانے کے لیے ہر زاویہ سے کوشش فرمائی ہے کہ لوگ اللہ کی توحید کا اقرار کریں جو دین حق کی مرکزی اور پہلی اساس ہے۔ مشرکین کی سوئی ہوئی حِس کو بیدار کرنے کے لیے سوال کیا جارہا ہے کہ اے حبیب (ﷺ) ! اگر آپ ان سے استفسار فرمائیں کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اب ان سے پھر سوال کریں کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سواپکارتے ہو اگر مجھے اللہ کی طرف سے تکلیف پہنچے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں؟ اگر میرا رب مجھ پر اپنی رحمت کا نزول فرمائے تو زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی ہستی اور طاقت ہے جو اللہ کی رحمت کے نزول میں رکاوٹ ڈال سکے ؟ ظاہر بات ہے کہ جس طرح زمین و آسمانوں کی تخلیق میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اسی طرح کوئی نفع اور نقصان پر اختیار رکھنے والا نہیں ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خوشی اور غم، عُسر اور یسر میں اپنے ” اللہ“ پر بھروسہ کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندے ” اللہ“ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس سے پہلی آیت کے تناظر میں اس کا یہ بھی مفہوم لیا جاسکتا ہے۔ کہ جن بتوں، دیوتاؤں اور زندہ اور فوت شدہ ہستیوں سے مجھے ڈراتے ہو وہ میرا کچھ بھی بگاڑ اور سنوار نہیں سکتیں۔ اگر تم اتنی بڑی سچائی پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہو۔ تو مجھ سے الجھنے کی بجائے اپنے عقیدہ پر عمل کرو اور میں اپنے عقیدہ پر قائم رہتاہوں۔ عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر دنیا کی ذلت نازل ہوتی ہے اور کون ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوتا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ قَالَ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ] ” حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (ﷺ) جب رکوع سے سر اٹھاتے تو کہتے، اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین کے درمیان خلاء جتنی اور اس کے بعد جتنی تو چاہتا ہے۔ تو اس تعریف کا سب سے زیادہ اہل ہے اور اس بزرگی کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے جو تعریف اور عظمت بندے بیان کرتے ہے ہم سب کے سب تیرے ہی بندے ہیں اے اللہ! جو چیز تو عطاء فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا اور نفع نہیں دے سکتا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (ﷺ) کے پیچھے سوار تھا آپ (ﷺ) نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، جب تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل: 1۔ ہر دور کے مشرک اس بات کا اعتراف کرتے رہے اور کرتے رہیں گے کہ زمین و آسمانوں کو صرف ایک اللہ نے پیدا کیا ہے؟ 2۔ اللہ کے سوا کوئی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہے۔ 3۔حقیقت یہ ہے کہ سب کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ 4۔ مشرک دنیا میں ذلیل ہوتا ہے اور آخرت میں ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ ہی نفع اور نقصان، شر اور خیر کا مالک ہے : 1۔ کیا تم اللہ کے سوا دوسروں کو خیر خواہ سمجھتے ہو۔ جو اپنے بھی نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد :16) 2۔ میں انپے نفع ونقصان کا بھی مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے؟ (یونس :49) 3۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں؟ (المائدۃ:76) 4۔ اگر اللہ تمہیں نفع ونقصان میں مبتلا کرنا چاہے تو کون اس سے بچائے گا۔ (الفتح :11) 5۔ معبودان باطل اپنی جانوں کے نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الفرقان :3) 6۔ فرما دیجیے کہ میں اپنے نفس کے نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف :188) 7۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس :106) 8۔ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے۔ (الانبیاء :66)