سورة الزمر - آیت 30

إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے نبی ! آپ بھی مر (٢١) جائیں گے اور یہ لوگ بھی مر جائیں گے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت30سے31) ربط کلام : بے علمی کی انتہا اور اس کے برے نتائج۔ مکہ کے ابتدائی سالوں کی بات ہے کہ اللہ کے رسول (ﷺ) قرآن مجید کے دلائل اور اس میں دی جانے والی امثال کے ذریعے توحید و رسالت اور آخرت کا عقیدہ بیان فرماتے تو مکہ کے بڑے بڑے لوگ لاجواب ہوجاتے لیکن عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کہتے کہ محمد (ﷺ) کی خود ساختہ دعوت از خود ختم ہوجائے گی تھوڑے سے انتظار کی ضرورت ہے اس کے مرنے کے بعد اس کا قصہ بالکل پاک ہوجائے گا۔ نہ اس کا بیٹا ہے جو اس کے مشن کو جاری رکھ سکے اور نہ اس کے ساتھی اتنے زیادہ ہیں جو ہمارا مقابلہ کرسکیں۔ اس موقعہ پر انہیں یہ جواب دیا گیا کہ ان کا کہنا ہے کہ آپ (ﷺ) کو موت آجائے گی۔ کیا آپ کو موت آئے گی تو انہوں نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ انہوں نے بھی مرنا ہے اور آپ کو بھی موت آئے گی کیونکہ موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ صرف آپ (ﷺ) کا رب ہمیشہ سے ہے اور اس نے ہمیشہ رہنا ہے۔ اسی کے سامنے قیامت کے دن تنا زعات پیش ہوں گے اور وہی تمہارے تنازعات کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ تنازعات انفرادی ہوں یا اجتماعی، مذہبی ہوں یا سیاسی، مالیاتی ہوں یا فوج داری غرض کے جس قسم کے بھی چھوٹے بڑے تنازعات ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلے صادر فرمائے گا۔ یہاں تک کہ جانوروں کے درمیان بھی عدل کے ساتھ فیصلے کیے جائیں گے۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَائِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْئٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْئٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (ﷺ) کی بیویوں میں سے کسی نے عرض کیا ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام واکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوجاتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (مومن موت سے پہلے گھبراتا ہے جب آجاتی ہے تو اپنے مالک کی ملاقات کے لیے خوش ہوجاتا ہے۔) مسائل: 1۔ اے رسول (ﷺ) آپ کو بھی موت آئے گی اور آپ کے مخالفوں نے بھی مرنا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن: موت سب کو آنی ہے : 1۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ صرف رب رحمن باقی رہے گا۔ (الرحمن : 26، القصص :88) 2۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود موت تمہیں نہیں چھوڑے گی۔ (النساء :78) 3۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف :34) 4۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران :144) 5۔ رسول اللہ (ﷺ) بھی موت سے ہمکنار ہوں گے۔ (الزمر :30) 6۔ ہر نفس کو موت آئے گی جو جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوگا۔ ( آل عمران :185)