لَّوْ أَرَادَ اللَّهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
اگر اللہ اپنے لئے کسی کو بیٹا ( ٣) بنانا چاہتا، تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا، وہ تو نقص و عیب سے پاک ہے، وہ تو اللہ ہے جو اکیلا ہر چیز پر غالب ہے
فہم القرآن: (آیت4سے5) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نہ کسی کو اپنی خدائی میں شریک کیا ہے اور نہ ہی کسی ذات کے ساتھ اس کی رشتہ داری ہے۔ اس سے پہلی آیت میں اس بات کو کذب اور گمراہی قرار دیا گیا ہے کہ کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی خدائی میں کچھ اختیارات دیئے ہیں۔ اب اس بات کی نفی کی جارہی ہے کہ ذات کبریا کی نہ کسی کے ساتھ رشتہ داری ہے اور نہ ہی اس نے کسی کو بیٹا یا بیٹیاں بنایا ہے اور نہ ہی اس کی ذات کو یہ بات زیبا ہے۔ اسے کسی کو بیٹا یا بیٹی بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر اسے کسی معاون کی ضرورت ہوتی تو مخلوق میں سے کسی کو اپنی ذات کے لیے مختص کرلیتا یعنی اسے اپنی خدائی میں شریک بنا لیتا۔ اسے اپنی ذات اور خدائی میں کسی کے تعاون کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ ہر قسم کی مجبوری اور معذوری سے پاک ہے۔ وہ اکیلا ہی ہر چیز پر پوری طرح اختیار رکھنے والا ہے۔ اس کے اقتدار اور اختیار کا کچھ اندازہ کرنا چاہو تو زمین و آسمانوں کی تخلیق پر غور کرکہ اربوں سال سے زمین پانی پرکھڑی ہے نہ کسی طرف سے جھکی اور نہ ہی اس میں کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے۔ اب آسمان کی طرف توجہ کرو ! جو ستونوں کے بغیر کھڑا ہے نہ کسی جانب سے جھکا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی کمزوری پیدا ہوئی ہے یہاں تک اس کی رنگت میں بھی کوئی فرق نہیں پیدا ہوا۔ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز اس نے بے مقصد پیدا نہیں کی اور نہ ہی ان کی تخلیق میں کوئی نقص چھوڑا۔ جو کچھ پیدا کیا ٹھیک ٹھیک پیدا کیا اور اس میں کوئی نہ اس کا کوئی شریک تھا اور نہ معاون۔ اب رات اور دن کے نظام پر غور کرو! کہ رات کس طرح دن کے حصے کو ڈھانپ لیتی ہے اور دن کس طرح رات کے کچھ حصہ پر چھا جاتا ہے۔ سورج اور چانداپنے مقررہ اوقات اور حساب کے مطابق اپنی اپنی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں۔ کیا مجال کبھی ان کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوا۔ یا ان میں سے کوئی اپنے وقت سے آگئے پیچھے ہوا ہو۔ اس پورے نظام کو بنانے اور چلانے والاصرف ایک ” اللہ“ ہے۔ چاہیے تو یہ کہ وہ کفار، مشرکین اور نافرمانوں کو ایک لمحہ میں نیست ونابود کردے۔ مگر ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود لوگوں کو باربار معاف کرنے اور ان سے در گزر فرمانے والاہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نہ کسی کو اپنی اولادبنایا اور نہ ہی اپنی خدائی میں کسی کو اختیار دیا ہے۔ 2۔” اللہ“ ہی نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی حاجت اور معذوری سے پاک ہے۔ 4۔ ” اللہ“ اکیلا ہی ہر قسم کی قوت کا مالک ہے۔ 5۔ اللہ ہی رات اور دن کو چھوٹا اور لمبا کرنے والا ہے۔ 6۔ ” اللہ“ ہی سورج اور چاند کو مسخر کرنے والا ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود لوگوں کو معاف کرنیوالا ہے۔ تفسیر بالقرآن: رات اور دن، سورج اور چاند پر صرف ” اللہ“ کا اختیار ہے : 1۔ سورج اور چاند اپنے مقررہ وقت کے پابند ہیں۔ (الرعد :2) 2۔ رات اور دن اپنے وقت کے پابند ہیں۔ (الزمر :5) 3۔ وہ ذات جس نے ستاروں کو اند ہیروں میں تمہاری رہنمائی کے لیے پیدا فرمایا۔ (الانعام :97) 4۔ چاند، سورج اور ستارے اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں۔ (الاعراف :54) 5۔ اللہ تعالیٰ نے سورج کو ضیاء اور چاند کو روشنی عطا کی ہے۔ (یونس :5) 6۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں چاند کو روشنی کا باعث اور سورج کو روشن چراغ بنایا۔ (نوح :16)