إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن طِينٍ
آپ اس وقت کو یاد کیجیے جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں بے شک مٹی سے ایک انسان (٣٠) پیدا کرنے والا ہوں
فہم القرآن: (آیت71سے85) ربط کلام : نبی کا کام لوگوں کو برے انجام سے ڈرانا ہے جو لوگ برے انجام سے بے خوف ہوں گے ان کا انجام ابلیس جیسا ہوگا۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) نے کفار اور مشرکین کو بار بار برے انجام سے متنبہ فرمایا مگر وہ لوگ دعوت قبول کرنے کی بجائے مخالفت میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے اس پر آدم (علیہ السلام) کے واقعہ کا وہ حصہ انہیں سنایا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں ملائکہ اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو ہوئے اور شیطان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلیل ٹھہرا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے لیکن ہر موقعہ پر جدا گانہ الفاظ اور استدلال پیش کیا گیا ہے۔ تخلیق آدم (علیہ السلام) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ جب اسے بنا کر میں اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب نے اس کے سامنے سجدہ کرنا ہے۔ ابلیس کے سوا تمام ملائکہ نے سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے استفسار فرمایا کہ اے ابلیس ! جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ہے اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس بات نے روکا ہے۔ کیا تو نے تکبر کیا ہے یا اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے؟ ابلیس نے جواب دیا کہ میں آدم (علیہ السلام) سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ حکم ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا کیونکہ تو راندہ اور دھتکارہ ہوا ہے۔ تجھ پر قیامت تک میری لعنت برستی رہے گی۔ ابلیس نے عرض کی۔ اے میرے رب! مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن لوگوں کو اٹھا یا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ تجھے قیامت تک مہلت دی جاتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ابلیس حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا ( علیہ السلام) کی طرح اپنے رب سے معافی کی درخواست کرتا لیکن اس نے معافی مانگنے کی بجائے اپنی غلطی پر اصرار کیا اور دلیل دی کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ کیوں کہ مجھے آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس پر بس نہیں کی بلکہ کہنے لگا کہ اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! میری کوشش ہوگی کہ تیرے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر اور بھی ارشادات فرمائے جن میں ایک ارشاد یہ تھا کہ میرا فرمان سچ اور اٹل ہے جو ہمیشہ سچ ہوا کرتا ہے کہ میں تجھ سے اور تیرے ماننے والوں سے جہنم کو بھردوں گا۔ جہاں تک ابلیس کا یہ کہنا کہ آگ مٹی سے بہتر ہے۔ یہ اس کی غلط بیانی تھی۔ 1 ۔آگ ہر چیز کو بھسم کردینے کے بعد خود بھی ختم ہوجاتی ہے۔ 2 ۔مٹی صدیوں تک چیز کو محفوظ رکھتی ہے اور خود ختم نہیں ہوتی۔ 3 ۔آگ کی تپش کی وجہ سے ہر جاندار اس سے دور بھاگتا ہے۔ 4 ۔زمین میں اپنائیت ہے اور ہر جاندار اس پر قیام کرتا ہے اور اس کی ان گنت ضروریات زمین سے وابستہ ہیں۔ 5 ۔آگ کی خاصیت تیزی اور تلخی ہے۔ 6 ۔زمین میں ٹھہراؤ اور برداشت ہے۔ 7 ۔آگ سے تپش کے سوا کوئی چیز نہیں نکلتی 8 ۔زمین میں پانی ہے اور ہر چیز اس سے پیدا ہوتی ہے۔ علیٰ ھٰذا القیاس مٹی ہر اعتبار سے آگ سے بہتر ہے کیونکہ شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار اور تکبر کیا۔ تکبر اور غرور میں خیر کی بجائے شر ہوتا ہے۔ جس وجہ سے ابلیس ذات کبریا سے معافی مانگنے کی بجائے گستاخی پر گستاخی کرتے ہوئے آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی میں آگے ہی بڑھتا گیا جس وجہ سے قیامت اور قیامت کے بعد تک اس پر لعنتیں برستی رہیں گی۔ لعنت کا معنٰی اللہ کی رحمت سے دور ہونا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ) [ مشکوٰۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : آدمی جب تک اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے تب تک وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔“ مسائل: 1۔ ابلیس نے تکبر کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ 2۔ ابلیس نے ذات کبریا سے معافی مانگنے کی بجائے گستاخی پر گستاخی کی۔ 3۔ ابلیس نے اپنے رب سے مہلت مانگی تو اسے قیامت تک مہلت دے دی گئی۔ 4۔ ابلیس نے اقرار کیا کہ میں اللہ کے مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کرسکوں گا۔ 5۔ قیامت کے دن ابلیس اور اس کے پیچھے چلنے والوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: ابلیس کی آدم (علیہ السلام) سے دشمنی اور اس کی گستاخیاں : 1۔ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس اس سے انکاری ہوا۔ (بنی اسرائیل :61) 2۔ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا۔ (الحجر : 30۔31) 3۔ ابلیس کہنے لگا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (بنی اسرائیل :61) 4۔ ابلیس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔ (الاعراف :12) 5۔ اگر تو مجھے قیامت تک مہلت دے تو میں تھوڑے لوگوں کے علاوہ اس کی اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔ (بنی اسرائیل :62) 6۔ شیطان نے کہا تو نے مجھے اس کی وجہ سے گمراہ کیا ہے میں بھی ان کے راستے میں بیٹھوں گا۔ (الاعراف :16) 7۔ میں اسے آگے پیچھے، دائیں بائیں سے گمراہ کروں گا۔ (الاعراف :17) 8۔ یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے اسے اپنا دشمن ہی سمجھو شیطان اور اس کا گروہ چاہتا ہے کہ تم جہنمی بن جاؤ۔ ( فاطر :6)