سورة ص - آیت 65

قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنذِرٌ ۖ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ میں تو صرف ڈرانے والا (٢٨) ہوں، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جو اکیلا ہے، سب پر غالب ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت65سے70) ربط کلام : لوگوں کو اچھے اور برے انجام سے آگاہ کرنے کے بعد نبی کریم (ﷺ) کی بعثت کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول کی بعثت کا بنیادی اور مرکزی مقصد توحید کی دعوت دینا تھا۔ آپ (ﷺ) نے اس دعوت کا آغاز فرمایا تو اہل مکہ نے اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے آپ کی مخالفت کا فیصلہ کیا جس پر قوم کے سرداروں نے ایک دوسرے کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اپنے اپنے قبیلے کے لوگوں کو ان کے آباؤ اجداد کے عقیدہ پر قائم رکھیں۔ اس پر اس سورۃ مبارکہ کی ابتدا میں پہلے اہل مکہ کو ڈرایا اور پھر سمجھایا کہ تم قوم نوح، عاد، فرعون، ثمود اور اصحاب الایکہ سے بڑھ کر نہیں ہو۔ راہ راست پر آجاؤ ورنہ ان کے انجام کا انتظار کرو۔ اس کے بعد چند انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مختلف قسم کی آزمائشوں کا ذکر فرما کر نبی محترم (ﷺ) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ جس دعوت کو لے کر اٹھے ہیں اس کے راستے میں مشکلات ضرور آیا کرتی ہیں۔ آپ ثابت قدمی کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں کفار اور مشرکین سے کھلے انداز میں کہہ دیں کہ میرا کام تمہیں برے فکر وعمل کے برے انجام سے انتباہ کرنا ہے۔ جسے میں کھلے الفاظ میں سر انجام دے رہا ہوں۔ کان کھول کر سن لوکہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور مسائل: حل کرنے والا نہیں۔ وہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے اکیلا اور قہار ہے۔ جب وہ اپنی قہاریت کا مظاہرہ کرنے پر آئے گا تو کوئی زندہ اور مردہ اس کے سامنے دم نہیں مار سکے گا۔ وہ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے۔ وہ ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود معاف کرنے والا ہے۔ میں نے تمہیں اللہ کی توحید، اس کے تقاضوں اور قیامت کی ہولناکیوں سے آگاہ کردیا ہے۔ قیامت آنے ہی والی ہے مگر تم اس سے اعراض کیے ہوئے ہو۔ مجھے خبر نہیں کہ ملاء الاعلیٰ کس بات پرجھگڑا کررہے تھے۔ میں آسمان کے بارے میں وہی باتیں جانتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتیں ہیں۔ جن تمہیں کھلے الفاظ میں آگاہ کررہا ہوں۔ (عَنْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () یَطْوِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَی ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ثُمَّ یَطْوِی الأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ)[ رواہ مسلم : باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ آسمان کو قیامت کے دن لپیٹ لے گا پھر اس کو دائیں ہاتھ میں پکڑے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں جابر لوگ ؟ کہاں ہیں تکبر کرنے والے؟ پھر زمین کو بائیں ہاتھ میں لپیٹ کر اعلان کرے میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں جابر لوگ؟ اور کہاں ہیں تکبر کرنے والے ؟“ (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَل (رض) قَالَ احْتُبِسَ عَنَّا رَسُول اللَّہ () ذَاتَ غَدَاۃٍ عَنْ صَلاَۃِ الصُّبْحِ حَتَّی کِدْنَا نَتَرَائَی عَیْنَ الشَّمْسِ فَخَرَجَ سَرِیعًا فَثُوِّبَ بالصَّلاَۃِ فَصَلَّی رَسُول اللَّہ () وَتَجَوَّزَ فِی صَلاَتِہِ فَلَمَّا سَلَّمَ دَعَا بِصَوْتِہِ قَالَ لَنَا عَلَی مَصَافِّکُمْ کَمَا أَنْتُمْ ثُمَّ انْفَتَلَ إِلَیْنَا ثُمَّ قَالَ أَمَا إِنِّی سَأُحَدِّثُکُمْ مَا حَبَسَنِی عَنْکُمُ الْغَدَاۃَ إِنِّی قُمْتُ مِنَ اللَّیْلِ فَتَوَضَّأْتُ وَصَلَّیْتُ مَا قُدِّرَ لِی فَنَعَسْتُ فِی صَلاَتِی حَتَّی اسْتَثْقَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّی تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِی أَحْسَنِ صُورَۃٍ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّیْکَ رَبّ قَال فیمَ یَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَی قُلْتُ لاَ أَدْرِی قَالَہَا ثَلاَثًا قَالَ فَرَأَیْتُہُ وَضَعَ کَفَّہُ بَیْنَ کَتِفَیَّ حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِہِ بَیْنَ ثَدْیَیَّ فَتَجَلَّی لِی کُلُّ شَیْءٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ یَا مُحَمَّد قُلْتُ لَبَّیْکَ رَبِّ قَال فیمَ یَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَی قُلْتُ فِی الْکَفَّارَاتِ قَالَ مَا ہُنَّ قُلْتُ مَشْیُ الأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ وَالْجُلُوسُ فِی الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ فِی الْمَکْرُوہَات قال فیمَ قُلْتُ إِطْعَام الطَّعَامِ وَلِینُ الْکَلاَمِ وَالصَّلاَۃُ باللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ قَالَ سَلْ قُلْتُ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِینِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِی وَتَرْحَمَنِی وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَۃَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِی غَیْرَ مَفْتُونٍ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلَی حُبِّکَ قَالَ رَسُول اللَّہ () إِنَّہَا حَقٌّ فَادْرُسُوہَا ثُمَّ تَعَلَّمُوہَا)[ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ ص] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن صبح کی نماز کا وقت تھا اور نبی (ﷺ) معمول کے مطابق تشریف نہ لائے۔ قریب تھا کہ سورج طلوع ہوجائے۔ پھر آپ (علیہ السلام) تیزی سے تشریف لائے تکبیر ہوئی اور نماز پڑھائی۔ سلام کے بعد ارشاد فرمایا اپنی جگہ پربیٹھے رہو۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہیں دیر سے آنے کی وجہ بتاتا ہوں۔ میں نے آج رات یاد الٰہی میں قیام کیا جتنا مقدور تھا۔ نماز پڑھی پھر مجھے نماز میں ہی اونگھ آگئی۔ یہاں تک کہ مجھے گرانی محسوس ہونے لگی۔ میں کیا دیکھتاہوں کہ میرا رب بڑی پیاری صورت میں تشریف فرما ہے اور ارشاد فرمایا محمد (ﷺ) ! میں نے عرض کی۔ اے میرے رب ! میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھایہ آسمان کے فرشتے کس بات پرجھگڑ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ میں نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھی۔ میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنے سینے میں محسوس کیا۔ اس کی برکت سے میرے لیے ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے اس کو پہچان لیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں تھا میں نے اسے جان لیا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا۔ اے محمد (ﷺ) ! میں نے عرض کی یا رب حاضر ہوں۔ پوچھا آسمان کے فرشتے کس بات پر جھگڑ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی درجات اور کفارات کے بارے میں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا درجات کیا ہیں ؟ میں نے عرض کی کھانا کھلانا، سلام کو عام کرنا اور رات کے وقت جب لوگ سورہے ہوں اٹھ کر نماز پڑھنا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ نے سچ کہا ہے۔ اب بتاؤ ! کفارات کیا ہیں؟ میں نے عرض کی کہ تکلیف کی حالت میں مکمل وضو کرنا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور جماعت میں شریک ہونے کے لیے چل کر جانا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نبی تو نے سچ کہا۔ اب مانگو جو مانگنا چاہتے ہو۔ میں نے عرض کی۔ الٰہی ! میں تجھ سے نیک کام کرنے کی تو فیق اور برے کاموں کو چھوڑنے کی طاقت اور مسکینوں سے محبت کرنے کی توفیق مانگتاہوں۔ میں التجا کرتاہوں کہ تو مجھے بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما اور جب اپنے بندوں کو کسی فتنہ میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے فتنہ سے بچا کر اپنی طرف بلا لے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت، اور جو تجھ سے محبت کرتا ہے اس کی محبت اور اس عمل کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو مجھ کو تیری محبت کے قریب کردے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے صحابہ کو فرمایا۔ اس دعا کے الفاظ تم بھی سیکھ لو ! کیونکہ یہ بہت ہی بہتر ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ ہر اعتبار سے غالب ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا خالق اور مالک ہے 3۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود اپنے بندوں کو معاف کرنے والاہے۔ 4۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) نے کھلے الفاظ میں لوگوں کو اللہ کی توحید اور قیامت کی ہولناکیوں سے آگاہ فرمایا۔ 5۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) وہی کچھ جانتے تھے جس کے بارے میں آپ کو وحی کی جاتی تھی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اکیلا اور غالب ہے : 1۔ ” اللہ“ ہی رب ہے۔ ( لانعام :102) 2۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔ ( الرعد :16) 3۔ اللہ کی ذات ہی ازلی اور ابدی ہے۔ (الحدید :3) 4۔ اللہ ہی مشرق ومغرب کا مالک ہے۔ (البقرۃ:142) 5۔ ” اللہ“ غنی ہے تعریف کیا گیا۔ ( فاطر :35) 6۔ زمین و آسمان پر اللہ کی بادشاہی ہے۔ (آل عمران :189) 7۔ قیامت کو بھی ” اللہ“ ہی کی حکومت ہوگی۔ (الفرقان :26) 8۔ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران :189) 9۔ کیا آپ نہیں جانتے ؟ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ (البقرۃ:107) 10۔ ” اللہ“ سخت عذاب دینے والا۔ ( البقرۃ:165) 11۔ ” اللہ“ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ( النساء :16) 12۔ صراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والا۔ ( الحج :54) 13۔ ” اللہ“ غیب وحاضر کو جاننے والا ہے۔ ( الحشر :22) 14۔ اللہ تعالیٰ ہی زندہ کرنے والا اور موت دینے والا ہے۔ ( البقرۃ:255) 15۔ اللہ تعالیٰ بندوں پر شفقت اور نرمی کرنے والا ہے۔ ( آل عمران :30) 16۔ اللہ ایک ہے اور زبردست طاقت والا ہے۔ ( ص65)