وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ
اور کیا آپ کو ان جھگڑنے والوں کی خبر (١٢) ہے جو دیوار پھاند کر داؤد کے عبادت خانے میں پہنچ گئے تھے
فہم القرآن: (آیت21سے25) ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ کا اہم واقعہ۔ قرآن مجید کا یہ بھی انداز تکلم ہے کہ وہ بعض دفعہ اہم ترین واقعات کو سوالیہ انداز میں شروع کرتا ہے تاکہ سننے والا ہمہ تن گوش ہو کر بات سنے اسی بنا پر حضرت داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے سے پہلے نبی محترم (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ کیا آپ کے پاس جھگڑنے والے دو آدمیوں کی خبر پہنچی ہے جو داؤد (علیہ السلام) کے خلوت خانہ میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے تھے۔ یہاں سرمایہ دارانہ ذہن کی عکاسی کرتے ہوئے بتلا یا گیا ہے کہ ایک کے پاس ننانوے دنبیاں تھیں اور اس کے بھائی کے پاس ایک تھی ننانوے دنبی رکھنے والے کی حرص کا یہ عالم تھا کہ اسے اپنے بھائی کے ہاں ایک دنبی بھی گوارا نہ تھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فیصلہ دیا کہ سو دنبی رکھنے والے کا آپ کی دنبی کا مطالبہ کرنا ظلم ہے اور ایمانداروں کے سوا اکثر شراکت دار ایساہی کیا کرتے ہیں اس کے ساتھ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اپنی غلطی کا احساس ہوا انہوں نے اپنے رب سے معافی طلب کی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا۔ کیونکہ وہ اپنے رب کے بہت مقرب اور بہترین مقام کے حامل تھے اس کی تفصیل پہلی آیت کے تفسیر میں گزر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص دولت کا پجاری اور سرمایہ پرستی کا شکار ہوجائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں مارکیٹ کے سارے کاروبار پر قبضہ کرلوں اور جب چاہوں لوگوں کو بلیک میل کروں اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ کہ ہمارے ملک میں کبھی اناج کے لوگوں کو چینی میسر نہیں ہوتی اور کبھی ایک ایک دانے کے پیچھے سرگرداں دکھائی دیتے ہیں اور یہی صورتحال بین الاقوامی مارکیٹ میں دکھائی دیتی ہے کہ سرمایہ دار طبقہ ہوس پرستی کی وجہ سے جب چاہتا ہے کسی چیز کا قحط پیدا کردیتا ہے۔ سرمایہ رکھنے والے حضرات میں اکثر طور پر رعونت پیدا ہوجاتی ہے وہ دولت کے بل بوتے پر ہر کسی پر حکم چلانا چاہتا ہے۔ اسی ذہن کی بدولت اہل مکہ نبی معظم (ﷺ) پر یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ آپ مال کے اعتبار سے کمزور اور سماجی حوالے سے یتیم ہیں۔ اسی ذہنیت کی بنیاد پر سو دنبی رکھنے والا شخص اپنے بھائی سے تحکمانہ انداز میں مطالبہ کرتا تھا کہ تجھے اپنے دنبی میرے حوالے کر دینی چاہیے۔ اس زیادتی کے باوجود غریب آدمی حضرت داؤد (علیہ السلام) کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے ننانوے دنبی رکھنے والے کو بھائی کے لفظ سے پکارتا ہے۔ غریب اور امیر کی زبان میں یہ فرق ہے جو ہر دور میں دکھائی دیتا ہے۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) نے ایسے لوگوں کی ہوس کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ) [رواہ البخاری : باب مایتقی من فتنۃ المال] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اللہ جس پر چاہتا ہے توجہ فرماتا ہے۔“ مسائل: 1۔ لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہیے۔ 2۔ حکمران کو لوگوں کی صحیح راہنمائی کرنی چاہیے۔ 3۔ بڑے لوگوں کو چھوٹے لوگوں کے حقوق غصب نہیں کرنے چاہیے۔ 4۔ اکثر شراکت دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔ 5۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے رب کے حضور استغفار کیا۔ 6۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ 7۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے رب کے ہاں بڑے مقام والے تھے۔