سورة الصافات - آیت 35

إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ان سے جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو کبر و غرور کا اظہار کرتے تھے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن:(آیت35سے39) ربط کلام : جہنمیوں کا سب سے بڑا جرم۔ جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے کا سب سے بڑا جرم یہ ہوگا کہ وہ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کے منکرہوں گے۔ دنیا میں جب بھی ایسے لوگوں کو انبیائے کرام یا ان کے سچے جانشینوں نے ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کی دعوت دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ لوگوں کی غالب اکثریت نے اس دعوت کے ساتھ تکبر کا مظاہرہ کیا۔ مشرک کی عادت ہے کہ جوں ہی اسے توحیدِخالص کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ منہ بسوڑتا اور تکبر کا اظہار کرتا ہے۔ دعوت توحید کے ساتھ تکبر کرنے والوں نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور نبی آخر الزّماں کی دعوت کو یہ کہہ کر ٹھکرایا کیا ہم اس شاعر اور دیو انے کے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟ اس الزام اور خرافات کے ساتھ انہوں نے یہ بھی پراپیگنڈہ کیا کہ ہمارے لیے اس نبی کی دعوت انوکھی ہے حالانکہ ان کے پہلے الزامات کی طرح یہ بات بھی سراسر جھوٹ تھی اور ہے۔ کیونکہ نبی آخر الزماں (ﷺ) صرف دعوت حق پیش کرنے والے نہیں تھے بلکہ پہلے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تصدیق بھی فرماتے تھے۔ ﴿وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ﴾ (صٓ: 4تا7) ” ان کو تعجب ہوتا ہے کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک آدمی سمجھانے والا آیا اور منکر کہتے ہیں کہ یہ جادوگر اور بڑا جھوٹا ہے۔ اس نے تمام معبودوں کو چھوڑ کر ایک معبود بنا لیا ہے کچھ شک نہیں کہ یہ عجیب بات ہے۔ ان کے سردار کہنے لگے کہ اپنے معبودوں پر جمے رہواس کے پیچھے تو کوئی غرض دکھائی دیتی ہے۔“ نبی کریم (ﷺ) کو کافر اس لیے دیوانہ کہتے تھے کہ اس شخص کی معاشرے میں بہت عزت بنی ہوئی تھی لیکن اس نے محض اپنی دعوت کی خاطر ساری عزت برباد کرلی ہے اور دیوانوں کی طرح ایک ہی بات دہرائے جاتا ہے۔ وہ اس لیے بھی آپ کو دیوانہ کہتے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی خدا اتنی بڑی کائنات کا نظام اکیلا چلا سکے۔ وہ آپ کو اس لیے بھی دیوانہ کہتے تھے کہ ہر قسم کی پیشکش کی ہے لیکن یہ دیوانوں کی طرح ہر بات کو ٹھکراتے جا رہا ہے۔ ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ ضرور اذّیت ناک عذاب میں مبتلاہوں گے اور یہ ان کو ان کے کیے کی سزا ملے گی۔ مسائل: 1۔ لوگوں کی غالب اکثریت دعوت توحید کے ساتھ تکبر کرتی ہے۔ 2۔ مشرکین اور کفار نے نبی اکرم (ﷺ) کو دیوانہ اور شاعر ہونے کا الزام دیا۔ 3۔ کفار نے نبی کریم (ﷺ) کی دعوت کو انوکھی بات قرار دیا۔ 4۔ نبی معظم (ﷺ) تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تصدیق کرنے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن: لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہَ کے ساتھ منکرین کا روّیہ : 1۔ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے ہیں۔ ( الصافات :35) 2۔ جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جل اٹھتے ہیں۔ ( الزمر :45) 3۔ جب تنہا ایک رب کی طرف بلایا جاتا ہے تو مشرکین اس دعوت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ ( المؤمن :12) 4۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرو تو وہ انکار کرتے ہوئے مزید نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ (الفرقان :60) 5۔ جب قرآن میں آپ کے اکیلے رب کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ اپنی پیٹھوں کے بل بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ (بنی اسرائیل :46) 6۔ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے آباء و اجداد کی پیروی کریں گے۔ ( البقرۃ:170)