فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
پس وہ ذات تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے، اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے اور مشرک کے عقیدہ اور قیامت کے منکر کی سوچ سے اعلیٰ اور مبرّا ہے۔ مشرک کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنے وسیع وعریض نظام کو اکیلا نہیں چلا سکتا اس لیے اسے معاونین کی ضرورت ہے قیامت کا منکر اس لیے جی اٹھنے سے انکار کرتا ہے کہ ایسا ہونا اس کے نزدیک بڑا محال ہے۔ ایسے لوگوں کے نظریات کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی قوت وسطوت، اقتدار اور اختیار کا ذکر پورے جلال کے ساتھ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جس ذات کے بارے میں ضعیف اور کمزور تصورات رکھتے ہو اس کے اقتدار واختیار کا عالم یہ ہے کہ ہر چیز کی بادشاہی اس کے پاس ہے وہی سب کا مالک اور خالق ہے۔ وہ اس قدر قادر ہے کہ تم چاہو یا نہ چاہو بالآخر تم سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اس کا فرمان ہے : ﴿قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْکَ رُءُ وْسَھُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا﴾[ بنی اسرائیل : 50تا51] ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے دلوں میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا۔ پھر وہ آپ کے سامنے اپنے سر ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ فرمادیں امید ہے عنقریب ہوگا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری اور شرک سے پاک ہے۔ 2۔ کائنات کے ذرّہ ذرّہ پر اس کی بادشاہی ہے۔ 3۔ وہی ہر چیز کا مالک اور خالق ہے اور سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔