سورة آل عمران - آیت 86

كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ تعالیٰ کیسے ہدایت دے گا ایسے لوگوں کو جو ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر (64) ہوگئے، اور اپنی اس گواہی کے بعد کہ رسول برحق ہے، اور ان کے پاس کھلی نشانیاں آجانے کے بعد، اور اللہ تعالیٰ ظالم قوموں کو ہدایت نہیں دیتا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 86 سے 88) ربط کلام : انبیاء کے مشن اور نظام کائنات کے خلاف چلنے والے کفار کی دنیا میں سزا اور آخرت میں اس کا انجام۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے والوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ کیونکہ تورات اور انجیل کے حوالے سے وہ رسول اللہ (ﷺ) کی رسالت کے بارے میں قلبی طور پر مانتے ہیں کہ یہ حق ہے۔ اس فرمان کے مخاطب اہل کتاب ہوں یا مرتدین آپ کی رسالت کی حقیقت کے ٹھوس دلائل جاننے کے باوجود جو بھی تسلیم ورضا کارویّہ اختیار نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت عطا نہیں کیا کرتا۔ جو شخص اپنے آپ پر ظلم کرنے کے درپے ہوجائے اس کا ہاتھ پکڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ہرزبان میں محاورہ ہے کہ ” سوئے ہوئے کو تو جگایا جاسکتا ہے۔ لیکن جاگتے کو جگانامحال ہوتا ہے“ یہاں بھی ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کیا جارہا ہے کہ جنہوں نے آپ کی رسالت کو اس طرح پہچان لیا ہے جس طرح باپ اپنے بیٹے کو پہچان لیا کرتا ہے لیکن پھر بھی تعصب یا کسی مفاد کے چھن جانے کے خوف سے آپ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے ظالموں کو ہدایت دینا تو درکنار ان پر اللہ تعالیٰ‘ ملائکہ اور دنیا جہان کے انسان پھٹکار بھیجتے ہیں۔ ایسا پھٹکارا ہوا شخص ہدایت پائے تو کس طرح؟ انہیں تو اس پھٹکار کی حالت میں ہمیشہ رہنا ہے اور یہ پھٹکار انہیں بالآخر جہنم میں لے جائے گی۔ جہاں ان پر نہ کبھی عذاب ہلکا ہوگا اور نہ وہ اس سے چھٹکارا پاسکیں گے۔ مسائل : 1۔ جان بوجھ کر حق کا انکار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ 2۔ کفار پر اللہ تعالیٰ اور پوری مخلوق لعنت کرتی ہے۔