سورة يس - آیت 45

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اس عذاب سے ڈرو (٢٤) جو تمہارے آگے آنے والا ہے، اور جو تمہارے پیچھے گذر چکا ہے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے (تو وہ دھیان نہیں دیتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت45سے46) ربط کلام : لوگوں کو مہلت پر مہلت دینے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے اعمال کی درستگی کرلیں۔ مگر پھر بھی لوگ اعراض ہی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مشرکین کو اپنی قدرتیں بتلا اور دکھلا کر باربار سدھرنے کا موقع دیتا ہے مگر ان کی حالت یہ ہے کہ جونہی انہیں سمجھانے والا یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور شرک سے باز آجاؤ۔ ورنہ جو کچھ تم اپنے آگے بھیج رہے ہو اور جو کچھ چھوڑ جاؤ گے وہ تمہاری ذلت و رسوائی کا سبب بنے گا لیکن مشرک اور نافرمان لوگ اپنے رب سے ڈرنے کی بجائے اس کی طرف سے دئیے جانے والے دلائل سے اعراض کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے مستحق قرار پانے کی بجائے اس کے غضب کے سزاوار ہورہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے اور مہربانی فرمانا چاہتا ہے۔ مسائل: 1۔ مشرک اور نافرمان لوگ اپنے انجام سے نہیں ڈرتے۔ 2۔ انسان جو کچھ اپنے آگے بھیجے گا اور جو کچھ پیچھے چھوڑے گا اس کا اچھا یا برا انجام دیکھ لے گا۔ 3۔ مشرک اور نافرمان لوگ کسی دلیل سے قائل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔