وَآيَةٌ لَّهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ
اور ان کے لئے ایک نشانی رات (٢٠) ہے، ہم اس سے دن کو الگ کردیتے ہیں، پس وہ لوگ تاریکی میں گھر جاتے ہیں
فہم القرآن: (آیت37سے40) ربط کلام : نباتات اور لوگوں کے اپنے نفوس سے اپنی قدرت کی نشاندہی کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی توجہ آفاق کی نشانیوں کی طرف مبذول کروائی ہے۔ انسان ہی نہیں دنیا میں بسنے والی ہر چیز کی زندگی، رات اور دن کے حساب سے شمار کی جاتی ہے۔ ہر ذی روح اور ہر چیز پر رات اور دن کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دن کی روشنی اور اس کی تپش کے اپنے اثرات اور فوائد ہیں۔ رات کی تاریکی اور اس کی نم ناکی کے اپنے نتائج ہیں جو ہر متحرک اور غیر متحرک چیز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ رات اور دن میں سب سے بڑی ” اللہ“ کی قدرت کی نشانی یہ ہے کہ رات کی تاریکی ہر چیز کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے۔ ہر ذی روح نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور صبح طلوع ہونے پر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتا ہے یہی انسان کی موت وحیات کا معاملہ ہے۔ جس طرح ہر ذی روح نیند کے بعد اپنے آپ بیدار ہوجاتا ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن صور پھونکنے پر ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سورج اور چاند ایسی نشانیاں ہیں جس کی کائنات میں کوئی نظیر موجود نہیں۔ سورج کی وجہ سے رات دن تبدیل ہوتے ہیں اور چاند رات کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے۔ رات کو پوری طرح تاریک رکھنے کے لیے چاند اپنے مدار کے اس حصہ میں داخل ہوجاتا ہے جہاں اس کی روشنی زمین کے حصہ سے غائب ہوجاتی ہے بالآخر چاند کھجور کی سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح ٹیڑھا دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے مدار قائم کر رکھے ہیں جو اپنی اپنی منازل طے کرتے ہوئے طلوع اور غروب کے عمل سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ سورج چاند کے مدار میں داخل ہوجائے یا چاند سورج کو پالے۔ نامعلوم کتنی صدیاں بیت چکیں لیکن چاند اور سورج، رات اور دن ایک دوسرے سے سبقت نہیں کرسکے اور نہ ہی کبھی ایسا ہوگا۔ یہاں سورج کے بارے میں ارشاد ہوا کہ یہ چاند کو نہیں پاسکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند سورج کے آگے آگے چلتا ہے کیونکہ رات پہلے ہوتی ہے اور دن رات کے بعد نمودار ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا تقویمی حساب ہے جوقیامت تک اسی طرح جاری اور ساری رہے گا لیکن جب اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوگا تو چاند بے نور ہو کر گر پڑے گا اور سورج اپنی جگہ پر تھم جائے گا۔ چاند اور سورج کے آنے جانے، رات اور دن کی آمدروفت میں انسان کے لیے ایک ایسا سبق ہے جس سے انسان اپنی موت اور زندگی کے بارے میں سوچ سکتا ہے کہ اسی طرح ہی ایک وقت آئے گا کہ میری زندگی کے سورج نے غروب ہونا ہے اور قیامت کے دن مجھے زندہ کیا جائے گا۔ یہاں سورج کے لیے ” مُسْتَقَرٌّ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے اہل علم نے اس کے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ مستقر سے مراد وہ جائے استقرار ہے جہاں پہنچ کر سورج دنیا کے ایک حصہ سے اوجھل ہوجاتا ہے اور اس عمل کو سورج کا سجدہ قرار دیا گیا ہے۔ دوسری جماعت کا خیال ہے کہ مستقر سے مراد وہ مقام ہے جہاں قیامت کے دن سورج کو رک جانے کا حکم ہوگا۔ رات کے بارے میں فرمایا کہ ہم اس سے دن ہٹا دیتے تو اندھیرہ چھا جاتا ہے۔ غور فرمائیں کہ اگر دن آدھی رات کے وقت نکل آئے تو لوگوں اور درندوں، پرندوں کی کیا حالت ہوگی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے لیل ونہار کا ایسا نظام ترتیب دیا ہے کہ دونوں اپنے اپنے وقت کے مطابق آتے جاتے ہیں کبھی اس نظام میں خلل واقع نہیں ہوا۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھَبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَوَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَآ اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہٗ ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا﴾ قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْشِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا مگر اسے اجازت نہ ملے۔ اسے حکم ہوگا جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔‘ ‘ سورج اور چاند کا انجام : ” حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کیا کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھا جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حسن (رح) نے پوچھا ان کا جرم کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں تمہیں نبی (رض) کی حدیث سنا رہا ہوں ابو سلمہ کی بات سن کر حسن خاموش ہوگئے۔“ [ الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاءت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ(ﷺ) (صحیح) ] مسائل: 1۔ رات اور دن کے آنے جانے میں انسان کے لیے ہدایت کا عظیم سبق ہے۔ 2۔ چاند اور سورج اپنے اپنے مدار میں رواں دواں ہیں۔ 3۔ سورج اور چاند ایک دوسرے کو نہیں پا سکتے۔ 4۔ نہ رات دن پر سبقت کرسکتی ہے اور نہ دن رات سے آگے نکل سکتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کے لیے منازل اور سورج کے لیے ایک مستقر قائم کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: لیل و نہار کا آنا جانا : 1۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف :54) 2۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر :5) 3۔ رات اور دن کا بڑھنا، گھٹنا۔ (الحدید :6) 4۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان :47) 5۔ رات کے سکون پر غور کرنے کی دعوت۔ (القصص :72) 6۔ دن رات کے بدلنے میں غور و خوض کی دعوت۔ (المومنون :80)