سورة فاطر - آیت 42

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کفار قریش اللہ کے نام کی بڑی بڑی قسمیں (٢٤) کھاتے تھے کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا رسول آئے گا، تو وہ ہر ایک قوم سے زیادہ راہ راست پر چلنے والے ہوں گے، لیکن جب ان کے پاس ڈرانے والا رسول آیا تو اس کی آمد نے ان کے فرار و نفرت کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کیا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت42سے43) ربط کلام :اللہ تعالیٰ بڑا برد بار اور معاف فرمانے والا ہے ورنہ جو لوگ نبی کی دعوت اور ذات کی مخالفت کرتے ہیں ان کی حالت یہ تھی کہ آپ کی بعثت کے انتظار میں ایک دوسرے کے سامنے قسمیں اٹھایا کرتے اور کہتے تھے کہ ہم مبعوث ہونے والے نبی پر ضرور ایمان لائیں گے۔ مکہ اور سرزمین حجاز میں مدت مدید تک کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ یہاں کے باسیوں کو اہل کتاب جہالت اور گمراہی کے طعنہ دیتے تھے جس کے جواب میں اہل مکہ قسمیں اٹھا اٹھا کرکہتے کہ جب ہم میں کوئی نبی مبعوث ہوگا تو ہم اس کی دعوت ضرور قبول کریں گے اور تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوں گے۔ لیکن جوں ہی اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں میں حضرت محمد (ﷺ) کو رسول منتخب فرمایا اور آپ نے اپنی دعوت کا آغاز اللہ کی توحید سے کیا تو اہل مکہ نے شرک و کفر چھوڑنے کی بجائے آپ کے خلاف ایک سے ایک بڑھ کر گھناؤنی سازش کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہ صرف ان کی مخالفت میں ناکام اور نامراد کیا بلکہ ان کی مخالفت کا نتیجہ انہیں کے خلاف نکلا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بسا اوقات سازش کرنے والوں کی سازشیں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں۔ جس طرح پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور آپ (ﷺ) کے بارے میں کچھ واقعات پائے جاتے تھے۔ جس میں بظاہر کفار کامیاب ہوئے۔ آپ (ﷺ) طائف گئے تو وقتی طور پر آپ کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخر کار اہل طائف آپ پر ایمان لائے اہل مکہ نے بھی متحد ہو کر آپ کو قتل کرنے کے لیے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا جس میں آپ کا بچ نکلنا محال تھا۔ لیکن اہل مکہ کو اپنے منصوبہ میں بد ترین ذلت اٹھانا پڑی۔ اس کے بعد بار بار مدینہ پر یلغار کرتے رہے لیکن بالآخر آپ (ﷺ) کے سامنے معافی کے خواستگار ہوئے۔ اس طرح کفار کے مکر و فریب ان کے خلاف ثابت ہوئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ مکروفریب کرنے والا بالآخر خود ہی اس کا خمیازہ بھگتا کرتا ہے۔ دنیا میں اکثر اور آخرت میں ہر صورت ایسا ہی ہوگا۔ اے نبی (ﷺ) جہاں تک آپ کے مخالفوں کا معاملہ ہے یہ بھی عملاً اسی انتظار میں ہیں کہ ان کے ساتھ پہلے لوگوں جیسا سلوک کیا جائے۔ یقین رکھیں کہ ان کے ساتھ ایسا ہو کر رہے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ چنانچہ مکہ کے اکثر سردار بدر میں قتل ہوئے اور باقی مسلمان ہوگئے۔ مسائل: 1۔ آپ (ﷺ) کی بعثت سے پہلے آپ کا انتظار ہورہا تھا۔ 2۔ مکرو فریب کا انجام خود مکار کے خلاف ہوا کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے اصول بدلا نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء کے خلاف سازشیں اور انکا انجام : 1۔ کفار نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے۔ ( الشعراء :119) 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو جلانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوئے۔ ( الانبیاء :68) 3۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی دھمکی دی مگر ناکام ہوا۔ ( الشعراء :65) 4۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو پھانسی دینے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا۔ (النساء :158) 5۔ منافقین نے سازشیں کرنے کے لیے مسجد ضراربنائی جسے مسمار کردیا گیا۔ (التوبۃ:107) 6۔ نبی (ﷺ) کو قتل کرنے کی سازش کی گئی مگر مکہ والے ناکام اور ذلیل ہوئے۔ (الانفال :30)