إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز (٢٠) سے واقف ہے، بے وہ سینوں کے رازوں کو جاننے والا ہے
فہم القرآن: (آیت38سے39) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے حضور جہنمی فریاد پر فریاد کریں گے کہ ہمیں ایک مرتبہ دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے ہم صالح اعمال کریں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی فریاد کو مستر کردے گا۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کے غیب ہی نہیں جانتا بلکہ وہ تو لوگوں کے سینوں کے رازوں سے بھی واقف ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے ماضی، حال اور مستقبل سے پوری طرح واقف ہے۔ اسے معلوم ہے کہ جہنمی دنیا میں واپس جاکر وہی اعمال کریں گے جن سے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور دین کے مبلغین منع کیا کرتے تھے اس لیے ان کی آہ وزاریوں کو مسترد کردیا جائے گا۔” اللہ“ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا جانشین بنانے والا اور ان تک اپنے احکام پہنچانے والا ہے۔ لیکن انکار کرنے والے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ یہ لوگ اپنے انجام کو پالیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ جس نے اس کی ذات اور بات کا انکار کیا اس کا بوجھ اسی پر ہوگا۔ کفارکا کفر اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ ہی کرتا ہے۔ ” خَلِیْفَۃٌ“ کی جمع ” خَلَائِفٌ“ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک نسل ختم ہونے کے بعد دوسری نسل کا وارث بننا۔ بعض لوگوں نے خلیفہ سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا خلیفہ قرار دیا ہے۔ جس کے لیے ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔ آدم (علیہ السلام) سے پہلے زمین پرجنات بستے تھے اس لیے بہتر ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا خلیفہ قرار دینے کی بجائے جنوں کا خلیفہ قرار دیا جائے۔ کچھ اہل علم نے خلیفہ کا معنٰی حکمران لیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک زمین میں حکمرانی عطا فرمائی ہے۔ اسی بنیاد پر ارشاد فرمایا : ﴿وَ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [ الانعام :165] ” اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا اور تمہیں ایک دوسرے پر درجات میں بلند کیا تاکہ ان چیزوں میں تمہاری آزمائش کرے جو اس نے تمہیں دی ہیں بے شک آپ کا رب بہت جلد سزا دینے والا ہے اور بے شک وہ بے حد بخشنے والا، مہربان ہے۔“ ﴿اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ﴾[ الحج :41] ” یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر بات اور لوگوں کے دلوں کے راز کو جانتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک دوسرے کا خلیفہ بنایا ہے۔ 3۔ کفار کا کفر انہی کے نقصان میں اضافہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: خلیفہ اور اس کی ذمہ داریاں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ ( البقرۃ:30) 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو خلیفہ بنایا۔ (ص :26) 3۔ ہم نے زمین میں ان کے بعد تمہیں خلافت دی تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔ (یونس :14) 4۔ اگر اللہ چاہتا تو تمہیں لے جاتا اور تمہارے بعد کسی اور کو خلیفہ بنا دیتا۔ (الانعام :133) 5۔ میرا رب تمہارے سوا کسی اور کو خلافت دے دے تو تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (ہود :57) 6۔ عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین کی خلافت عطا کرے گا۔ (الاعراف :129)