سورة فاطر - آیت 14

إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اگر تم انہیں پکارو گے تو وہ تمہاری پکار نہیں سنیں گے، اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو وہ تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے، اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کردیں گے، اور تمہیں اس کے مانند کوئی خبر نہیں دے سکتا، جو ہر چیز سے باخبر ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو مشرکین پکارتے ہیں ان کی حیثیت۔ قرآن مجید باربار ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو نہ پکارا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ سے بھی مدد مانگتا ہے اور اس کے ساتھ بتوں، فوت شدگان، جنّات، ملائکہ یا کسی اور غیر مری طاقت سے بھی امداد طلب کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے قیام، رکوع، سجدہ اور نذرونیاز پیش کرتا ہے اسی طرح ہی درسروں کے سامنے جھکتا اور نذرانے پیش کرتا ہے۔ گو یا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ دوسروں کی عبادت کرتا اور ان کو پکارتا ہے۔ قرآن مجید اس بات سے بھی روکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہ پکاراجائے۔ پہلے طریقہ کے لیے ” وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہٖ“ کے الفاظ آئے ہیں اور دوسرے انداز کے لیے ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہٖ“ یا ” مِنْ دُوْنِہٖ“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مدد طلب نہیں کرنی چاہیے۔ بے شک وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا حضرت عزیر (علیہ السلام) یا کوئی فوت شدہ ہستی۔ تمام فوت شدگان کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ وہ نہیں سنتے۔ بفرض محال اگر وہ سن بھی لیں تو وہ تمہاری فریاد کا جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے دن جب ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ اپنے پکارنے والوں کا انکار کردیں گے۔ اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے یہ الفاظ لا کر ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی نہ سن سکتے ہیں اور نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ لوگو! سنو اور سوچو! تمہارا رب تمہیں شرک کے بارے میں کس طرح باربار روکتا ہے اور اسے کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس علیم و خبیر کے سوا کوئی تمہیں اس طرح نہ سمجھا سکتا اور نہ بتلا سکتا ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں، آپ (ﷺ) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے والے سے فرمائے گا کہ اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے پاس ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے؟ وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا مگر تو شرک سے باز نہ آیا۔“ مسائل: 1۔ فوت شدگان کسی کی بات نہیں سنتے اور نہ ہی جواب دے سکتے ہیں۔ 2۔ قیامت کے دن فوت شدگان اپنے ساتھ کیے گئے شرک کی نفی کریں گے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ باربار لوگوں کو شرک کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اس کے سوا کسی اور کو پکارنا شرک ہے : 1۔ بس ایک الٰہ کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص :88) 2۔ اللہ ہی کو پکارو وہی تکلیف دور کرتا ہے۔ (الانعام :41) 3۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس :106) 4۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف اسی کو پکارو (المومن :65) 5۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نا پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہی ہے۔ (القصص :88) 6۔ وہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں خالصتاً اسی کو پکارو۔ (المومن :65) 7۔ سب کو صرف اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو۔ (البینۃ:5) 8۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکاریں ورنہ آپ عذاب میں مبتلا ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (الشعراء :213) 9۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء :36) 10۔ مومنو! اللہ کو اخلاص کے ساتھ پکارو اگرچہ کفار کے لیے یہ ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ (المومن :14)