سورة فاطر - آیت 3

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے لوگو ! تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت (٢) کو یاد کرو، کیا اللہ کے سوا اور کوئی پیدا کرنے والا ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی پہنچاتا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، پس تمہاری عقل کیوں ماری گئی ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو رحمت اور نعمتوں سے نوازنے والا ہے اس کے سوا کوئی کسی کو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی عطا نہیں کرسکتا۔ وہی منعم حقیقی اور خالقِ کل ہے اس کا ارشاد ہے کہ لوگو! میری نعمتوں کو یاد رکھا کرو۔ جب انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ مجھے صرف اللہ ہی نوازنے والاہے، وہی میرا رازق اور خالق ہے تو پھر اس کے حاشیہ خیال سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ مجھے کوئی اور بھی نوازسکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ لوگوں سے استفسار فرماتا ہے کہ بتاؤ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں زمین و آسمان سے رزق فراہم کرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں۔ جب اس کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں تو پھر کس بنیاد پرتم دوسروں کو داتاو دستگیر، حاجت روا، مشکل کشا کہتے اور سمجھتے ہو؟ یاد رہے کہ یہاں الٰہ کا لفظ خالق اور رازق کے معنٰی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں تو پھر اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ دوسروں کو ملا کر کیوں گمراہی میں بھٹکتے ہو؟ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا انسان کو کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ نعمت بھی عطا نہیں کرسکتا۔ 2۔ اللہ ہی کائنات کا خالق اور رازق ہے۔ 3۔ اس کے سوا زمین و آسمان میں کچھ بھی کوئی دینے والا نہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو داتا و دستگیر کہنے والا راہ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے۔