الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
تمام تعریفیں (١) اللہ کے لئے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا، اور ایسے فرشتوں کو اپنا پیغام رساں بنانے والا ہے جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں، وہ اپنی مخلوقات کی تخلیق میں جو چاہے اضافہ کرتا ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
فہم القرآن: تمام تعریفات ” اللہ“ ہی کے لیے ہیں جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ وہی ملائکہ کو پیغام رساں بنانے والاہے۔ اسی نے ملائکہ کو دو دو، تین تین اور چارچار پَر عطا فرمائے ہیں۔ وہ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ ہر کام کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لیے بھی تعریف کا مستحق ہے کہ اس نے زمین و آسمانوں کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس نے آسمانوں کو اسی ساخت اور پرداخت کیساتھ بنایا جس طرح ان کی تخلیق کا مقصد تھا۔ زمین کو تہہ در تہہ بچھایا اور اس میں ایسی صلاحیتیں رکھیں جو اس کے بسنے والوں کے لیے ضروری تھیں۔ ملائکہ کی تخلیق کے بیان کے فوراً بعد ” یَزِیْدُ“ کا لفظ لا کر یہ واضح فرمایا کہ ملائکہ صرف چار چار پَر رکھنے والے ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے ملائکہ بھی پیدا فرمائے ہیں جن کا وجود سینکڑوں پروں پر مشتمل ہے۔ اس کی تخلیق میں جمود اور ٹھہراؤ نہیں بلکہ وہ مخلوق در مخلوق پیدا کرنیوالا ہے۔ زمین کی طرف دیکھیے جو نباتات آج سے ایک صدی پہلے موجود نہ تھی آج وہ بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ نا معلوم قیامت تک کون کون سی نباتات زمین سے برآمد ہونے والی ہیں۔ یہی حالت معدنیات کی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ آسمان کی طرف کسی لطیف ترین دوربین سے دیکھیں تو عقل حیران رہ جائے گی کہ لاکھوں کی تعداد میں مٹنے والے سیاروں کی جگہ دوسرے سیارے نمودار ہورہے ہیں۔ آسمان کے بارے میں ارشاد ہے کہ ہم نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم ہی انہیں وسعت دینے والے ہیں۔ (الذّاریات :47) ملائکہ کی تخلیق کے ذکر میں ارشاد ہے کہ انہیں پیغام رسانی کے لیے بنایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کانظام چلانے کے لیے ملائکہ کو مختلف قسم کی ذمہ داریاں دے رکھی ہیں جو انتہائی تابع فرمان خادم کی حیثیت سے اپنے خالق کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہیں ان کی ذمہ داریوں میں پیغام رسانی کا ذکر فرما کر انسانوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ تمہاری تمام حرکات و سکنات کو ملائکہ نہ صرف نوٹ کرتے ہیں بلکہ وہ اسے اپنے رب کے حضور پیش بھی کرتے ہیں۔ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کے کارکنان ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو براہ راست دیکھنے والا اور جاننے والاہے۔” قَدِیْرٌ“ کا لفظ استعمال فرما کر مشرکوں کے اس عقیدہ کی نفی کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خدائی میں ملائکہ کو بھی کچھ اختیار دے رکھے ہیں ایسا ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ پوری کائنات میں بلا شرکت غیرے کامل اور مکمل اختیار رکھنے والا ہے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِی (ﷺ) رَأَی جِبْرِیلَ وَلَہُ سِتُّمِائَۃِ جَنَاحٍ)[ رواہ البخاری:کتاب بداء الخلق] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اس کے چھ سو پر تھے۔“ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں ملائکہ کا تذکرہ اور ان کے کام : 1۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی گواہی دیتے ہیں۔ ( النساء :166) 2۔ قرآن مجید میں ٤ فرشتوں کا نام آیا ہے۔ جبرائیل، میکائیل، ملک الموت، مالک۔ (البقرۃ، 98، السجدۃ: 11، الزخرف :77) 3۔ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (نبا :38) 4۔ جبریل (علیہ السلام) مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم :8) 5۔ جبریل (علیہ السلام) طاقتور فرشتہ ہے۔ (النّجم :5) 6۔ جبریل (علیہ السلام) دیانت دار فرشتہ ہے۔ (الشعراء :193) 7۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ (ﷺ) کے قلب اطہر پر قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ :97) 8۔ (اسرافیل) قیامت کے دن صور پھونکے گے۔ (الزمر :68) 9۔ جہنم کے کنٹرولر فرشتے کا نام مالک ہے۔ (الزخرف :77) 10۔ قیامت کے دن 8فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ (الحاقۃ:17) 11۔ اللہ تعالیٰ کے عرش کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں اور مومنوں کے لیے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں۔ (المؤمن :7) 12۔ فرشتے جنت پر معمور ہیں۔ (الزمر :73) 13۔ فرشتے جہنم پر ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ ( الزمر: 71) 14۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (البقرۃ:30) 15۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دیتے ہیں۔ ( ہود :69) 16۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے نافرمانوں کو عذاب دیتے ہیں۔ (ہود :77) 17۔ ملائکہ لوگوں کے اعمال کا درج کرتے ہیں۔ ( انفطار :11) 18۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں۔ ( آل عمران : 124، 125)