سورة سبأ - آیت 31

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن نُّؤْمِنَ بِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اہل کفر کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان (٢٦) نہیں لائیں گے، اور نہ اس کتاب پر جو اس سے پہلے آچکی ہے، اور کاش آپ ظالموں کا حال زار اس وقت دیکھتے جب وہ اپنے رب کے حضور کھڑے کئے جائیں گے، ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرائیں گے، جو لوگ دنیا میں کمزور سمجھے جاتے تھے وہ ان سے کہیں گے جو متکبر بنے پھرتے تھے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان لے آئے ہوتے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت31سے32) ربط کلام : منکرین قیامت کی ہٹ دھرمی کی انتہا اور اس کا جواب۔ توحید و رسالت اور قیامت کے دلائل سُننے اور ان کے سامنے جھکنے کی بجائے منکرین قیامت ہٹ دھرمی کی بنیاد پر کہا کرتے ہیں کہ ہم نہ اس قرآن کو ماننے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی اس سے پہلی کتابوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص کسی دلیل کو ماننے اور کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو اسے سمجھانا اور منوانا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی کیفیت منکرین قیامت کی تھی اس لیے ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر (ﷺ) ! اب تو یہ لوگ پوری ڈھٹائی کے ساتھ انکار کیے جاتے ہیں۔ کاش ! آپ اس وقت ان کا حال دیکھیں جب ظالم اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت یہ لوگ اپنے کفر کو ایک دوسرے کے ذمے لگائیں گے۔ ماتحت لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم رکاوٹ نہ بنتے تو ہم ضرور ایمان لانے والوں میں شامل ہوتے۔ گویا کہ مرید اپنے پیروں، ور کراپنے لیڈروں اور ماتحت اپنے حاکموں کو مورودِالزام ٹھہراتے ہوئے اپنے آپ کو بری الذّمہ قرار دینے کی کوشش کریں گے۔ اس کے جواب میں پیر، لیڈر اور حاکم اپنے ماتحتوں سے کہیں گے کیا ہم نے تمہیں اس ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی تھی ؟ ایسا ہرگز نہیں تم تو خود ہی مجرم تھے یعنی تم پہلے سے ہی دین کے باغی اور قیامت کے منکر بنے ہوئے تھے۔ مسائل: 1۔ ہٹ دھرم لوگ کسی دلیل کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ 2۔ حق کا انکار کرنیوالے لوگ ایک دوسرے کو مجرم ٹھہرائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: جہنمیوں کا آپس میں تکرار کرنا : 1۔ جہنم میں مرید، پیروں، ور کر، لیڈروں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ دور کرسکتے ہو؟ (ابراہیم :21) 2۔ جب جہنمی اپنے سے پہلے لوگوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف :38) 3۔ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت :25) 4۔ وہ آہ زاریاں کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کردیا۔ (الاحزاب :67) 5۔ اے رب ان کو دوہرا عذاب دو اور ان پر سخت لعنت کرو۔ (الاحزاب :68) 6۔ قیامت کے دن پیروکار کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے براءت کا اظھار کریں گے۔ (البقرۃ:167)