وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ
اور ہم نے داؤد کو اپنے فضل خاص سے نوازا (8) تھا، (ہم نے حکم دیا تھا) کہ اے پہاڑو ! ان کے ساتھ تم بھی تسبیح پڑھو، اور چڑیوں کو بھی یہی حکم دیا تھا، اور ہم نے ان کے لئے لوہے کو نرم بنا دیا تھا
فہم القرآن: (آیت10سے11) ربط کلام : ” اللہ“ کی طرف رجوع کرنے والے بندے کے لیے زمین و آسمان میں بہت سے نشان عبرت ہیں۔ اور ” اللہ“ کی طرف رجوع کرنے والوں میں حضرت داؤد (علیہ السلام) سر فہرست ہیں۔ اس لیے اس موقعہ پر ان کا تذکرہ ضروری سمجھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو بہت سی نعمتوں سے نوازا تھا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہودہ کے ایک نوجوان تھے۔ فلسطینیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے کڑیل اور جری دشمن کو قتل کیا جس بنا پر بنی اسرائیل میں مقبول ہوئے اور طالوت کی وفات کے بعد پہلے موجودہ الخلیل میں یہودیہ کے حکمران بنائے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا اور انہوں نے یروشلم کو فتح کرکے اسے اسرائیل کا دارالحکومت بنایا۔ ان کوششوں سے پہلی مرتبہ ایک فلسطین میں اسلامی سلطنت قائم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو ایک سپاہی کے درجے سے اٹھا کر نہ صرف ملک کا حکمران بنایا بلکہ تاج نبوت اور زبور جیسی پُر تاثیر کتاب عطا فرمائی جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) زبور کی تلاوت کرتے تو نہ صرف پرندے مسحور ہوجاتے بلکہ جہاں تک ان کے پڑھنے کی آواز جاتی پہاڑ بھی جھوم اٹھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر اپنا فضل ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو حکم دے رکھا تھا کہ داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر اپنے رب کی تسبیح بیان کیا کرو اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کردیا تاکہ داؤد (علیہ السلام) ایسی زرہیں بنائیں جن کی کڑیاں مضبوط ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں۔ اسے اور پہننے والے کو کسی قسم کی الجھن محسوس نہ ہو۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ اقتدار اور طاقت کے نشہ سے بچتے ہوئے صالح اعمال کرتے رہنا اور ہر دم یاد رکھنا کہ تمہارا رب تمہیں ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کا نغمہ سرا ہونا، پرندوں کا جھوم اٹھنا اور انکے ہاتھ میں لوہے کا نرم ہوجانا، یہ ان کا معجزاتی عمل تھے۔ امام رازی (رض) لکھتے ہیں کہ صرف پہاڑوں اور پرندوں پر یہ کیفیت نہ ہوتی بلکہ ہر چیز پر یہی حالت طاری ہوجاتی تھی۔ ( تفسیر کبیر) (عنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ)قَالَ لَهُ: «يَا أَبَا مُوسَى، لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ) حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ﷺ )نے مجھے مخاتب کرتے ہوئے فرمایا:اے ابو موسیٰ تمہاری آواز اس قدر سریلی اور خوبصورت ہے گویا کہ تمہیں لحن داود علیہ السلام عطا کیا گیا ہے۔‘‘ مسائل: 1۔ مسلمانوں کو صنعت و حرفت میں ترقی کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے لوہے میں طاقت اور برکت رکھی ہے۔ 3۔ اقتدار اور قوت حاصل ہوجانے کے بعد آدمی کو نیک اعمال سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خصوصیت اور قرآن مجید میں ان کا تذکرہ : 1۔ داؤد (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے۔ ( الانعام :84) 2۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو بادشاہت اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ ( البقرۃ:251) 3۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا کی۔ ( النساء :163) 4۔ اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا۔ (ص :26) 5۔ ہم نے داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) کو علم عطا فرمایا۔ (النمل :15) 6۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو اپنے فضل سے نوازا۔ (سبا :10) 7۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو حمد و ثنا کے لیے مسخر کردیا۔ (الانبیاء :79) 8۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کی سلطنت مضبوط کی اور انہیں فیصلہ کن خطاب کا ملکہ دیا۔ ( ص :20)