وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
اور جو لوگ اہل علم (5) ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ پر آپ کے رب کی جانب سے جو قرآن نازل ہوا ہے وہ برحق ہے، اور اس اللہ کی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو بڑا زبردست، بڑی تعریفوں والا ہے
فہم القرآن: ربط کلام : قیامت برپا ہونے کے بارے میں ایک اور ثبوت۔ کسی بھی حقیقت کو جاننے کے لیے دنیا میں جو ثبوت اور دلائل پائے جاتے ہیں ان میں یہ بات ہمیشہ سے مسلّمہ رہی ہے کہ اس مسئلہ کے بارے اس دور کے منعف مزاج اہل علم کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ اگر صحیح اور ٹھوس علم رکھنے والے لوگ اس بات کی تائید کریں تو معاشرتی اعتبار سے اس کو تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ جہاں تک قیامت برپا ہونے کا عقیدہ ہے اس کے بارے میں ہر دور کے دانش ور اور اہل علم یہ عقیدہ رکھتے ہیں اور رکھیں گے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوگی۔ اور عقل کا بھی یہ تقاضا ہے کہ قیامت قائم ہونی چاہیے تاکہ ہر کسی کو اس کے کیے کی جزا یا سزا مل سکے۔ اسی فکر کی بنیاد پر قرآن مجید نے منکرین قیامت کو یہ بات سمجھانے کی کو شش کی ہے کہ اگر تمہیں قیامت کے برپا ہونے کے بارے میں شک ہے تو اپنے دور کے اہل علم سے استفسارکیجیے وہ یقیناً تمہیں بتلائیں گے کہ جس قرآن سے تمہیں قیامت برپا ہونے کے دلائل دیئے جاتے ہیں وہ حقیقتاً آپ کے رب کی طرف سے سچ اور حق بن کر نازل ہوا ہے قرآن کو نازل کرنے والا ہی کائنات کی ہر چیز پر غالب اور ہر لحاظ سے تعریف کے لائق ہے۔ اور قرآن صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔ اہل علم سے مراد صحابہ (رض) اور وہ حضرات ہیں جو اہل کتاب کے نیک علماء ہیں اور جن پر ان کے ہم عصر اور ہم مکتب لوگ اعتماد کرتے تھے۔ عبداللہ بن سلام (رض) یہود کے ممتاز علماء میں سے تھے اور حقیقت پسند تھے۔ جب آپ (ﷺ) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور عبداللہ بن سلام نے آپ میں وہ نشانیاں دیکھیں جو تورات میں نبی آخر الزماں کی بتلائی گئی ہیں آپ سے چند سوالات پوچھنے کے بعد وہ اسلام لے آئے۔ اور رسول محترم (ﷺ) کو یہود کی سرشت سے آگاہ کیا‘ جس پر یہود ان کے دشمن بن گئے۔ بعد ازاں زنا کے ایک مقدمہ میں یہود نے تورات سے رجم کی آیت کو چھپانا چاہا تو عبداللہ بن سلام (رض) نے اس آیت کی نشاندہی کر کے یہود کو شرمندہ کیا۔ [ رواہ ابوداؤد : کتاب الحدود، باب فی رجم الیہودیین] (عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَاد۔۔ رَأَیْتُ رُؤْیَا عَلَی عَہْدِ النَّبِی (ﷺ) فَقَصَصْتُہَا عَلَی النَّبِیِّ (ﷺ) قَال۔۔ فَأَنْتَ عَلَی الإِسْلاَمِ حَتَّی تَمُوت۔۔)[ رواہ البخاری : کتاب المناقب‘ باب مناقب عبداللہ بن سلام] ” قیس بن عباد بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام (رض) کو ایک خواب آیا جس کی تعبیر رسول اللہ (ﷺ) نے یہ بتلائی کہ عبداللہ بن سلام آخر دم تک اسلام پر ثابت قدم رہیں گے۔“ مسائل: 1۔ ہر دور کے اہل علم قیامت آنے کی تصدیق کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ 2۔ اہل علم سے مراد وہ لوگ ہیں جو تورات، انجیل اور قرآن مجید کو تسلیم کرتے ہیں 3۔ ” اللہ“ ہی ہدایت دینے والا ہے۔ 4۔ قیامت ہر صورت قائم ہو کر رہے گی۔ تفسیر بالقرآن: ” اللہ“ ہی ہدایت دینے والا ہے : 1۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ:120) 2۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص :56) 3۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ :213) 4۔ ہدایت پر چلانا انبیاء کی ذمہ داری نہیں۔ (البقرۃ:272) 5۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف :43) 6۔ جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (الرعد :33) 7۔ ہدایت پانا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ (الحجرات :17) 8۔ جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے۔ (الکہف :17) 9۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ:142) 10۔ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (ابراہیم :4) 11۔ جسے اللہ گمراہ کر دے کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔ (الاعراف :186) 12۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور (ہدایت دینے والا) ہے۔ (النور :35) 13۔ اللہ ہی اندھیرے اور روشنی پیدا کرنے والا ہے۔ (الانعام :1)