إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
بے شک ہم نے اپنی امانت (55) آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا، اور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اسے اٹھا لیا، وہ بے شک بڑا ہی ظالم، نادان تھا
فہم القرآن: (آیت72سے73) ربط کلام : جس نے اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کی وہ کامیابی پائے گا اور وہی امانت کا حق ادا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے بارِامانت کو آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ لیکن انہوں نے اس بوجھ کو اٹھانے سے معذرت کی۔ کیونکہ وہ اس امانت کی ذمہ داری سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک انسان بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ اہل علم کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ” اَلْاَمَانَۃَ“ سے مراد خلافت کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ ایسا اختیار اور ذمہ داری ہے جس کو اٹھانے سے آسمانوں نے اپنی وسعت وبلندی، زمین نے اپنی جسامت اور کشادگی، پہاڑوں نے اپنی بلندیوں اور مضبوطی کے باوجودعرض کی کہ بارِالٰہا ہم یہ اختیار لینے سے آپ کے حضور معذرت کرتے ہیں۔ ہم تو صرف آپ کی سمع و اطاعت کرتے رہیں گے۔ جب یہ امانت انسان کے سامنے پیش کی گئی تو اس نے کمزور ہونے کے باوجود اسے اٹھا لیا جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں اپنی حد سے آگے بڑھنا اور بلا سوچے سمجھے کوئی کام کرگزرنا اور اس میں منصب کے حصول کا شوق بھی پایا جاتا ہے۔ جو جہالت اور ظلم کی ایک قسم ہے۔ اسی سبب اپنے آپ اور دوسروں پر انسان ظلم اور جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔ جب کسی کو کچھ اختیار ملتے ہیں تو وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتاکہ میں اس منصب کا حق ادا کرسکوں گا یا نہیں۔ انسان منصب، شہرت، مفادات اور اختیارات کے شوق میں ذمہ داری پر ذمہ داری اٹھاتا جاتا ہے۔ ایک طرف اس کا حق ادا نہ کر کے اپنے آپ پر ظلم کر رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنے اقتدار اور اختیار سے تجاوز کر کے دوسروں پر ظلم ڈھاتا ہے اور اپنے رب کا باغی بن جاتا ہے یہ انسان کی بہت بڑی جہالت اور ظلم ہے۔ جن لوگوں نے اپنے رب کے عطا کردہ اختیارات سے تجاوز یا جان بوجھ کر تساہل کیا اور جن لوگوں نے منافقت کی یا اپنے رب کی ذات اور اسکی صفات میں کسی کو شریک ٹھہرایا وہ مرد ہو یا عورت اللہ تعالیٰ انہیں سزا دے گا۔ جنہوں نے خدائی اختیارات کو امانت و دیانت اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے گا کیونکہ وہ نہایت مہربانی کرنے والا ہے۔ (عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا تَسْتَعْمِلُنِي؟ قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِي، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةُ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا‘ کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! آپ مجھے کوئی عہدہ کیوں نہیں دیتے؟ آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر مارتے ہوئے فرمایا‘ اے ابوذر! یقیناً تو کمزور آدمی ہے اور یہ عہدہ امانت ہے جو بلا شبہ قیامت کے دن رسوائی اور ذلت کا باعث ہوگا‘ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے حق کو سوچ سمجھ کر استعمال کیا اور ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھایا۔“ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان كرتےہیں رسول اكرمﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص كو تین افراد پر امیر مقرر كیا گیا اور اس نے عدل وانصاف كے بجائے ظلم وستم سے كام لیا تو قیامت كے دن اس كا دایاں هاتھ بندھا ہوا ہوگا۔‘‘ ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے قبیلے کے دو آدمی رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دونوں میں سے ایک نے کہا : اے اللہ کے رسول! مجھے عہدہ دیجیے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا آپ (ﷺ) نے فرمایا : یقیناً ہم ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیتے جو عہدہ طلب کرے اور نہ ہی ایسے شخص کو جو عہدے کا حریص ہو۔“ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) سے سنا آپ (ﷺ) نے فرمایا تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور وہ اپنی ذمہ داری کا جواب دہ ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ] مسائل: 1۔ اَلْاَمَانَۃُ سے مراد خلافت کی ذمہ داری ہے۔ 2۔ انسان اختیارات کے بارے میں بڑا ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے۔ تفسیر بالقرآن: انسان کی فطرتی کمزوریاں : 1۔ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (النساء :28) 2۔ انسان جلد باز ہے۔ (بنی اسرائیل :11) 3۔ انسان فطرتاً جلد باز ہے۔ (الانبیاء :37) 4۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل :100) 5۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ ( العادیات :6) 6۔ بے شک انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے۔ (ا برا ہیم :34)