يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے میرے نبی ! آپ اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے، اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادروں کا ایک حصہ (48) اپنے اوپر لٹکا لیا کریں، یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائے، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے
فہم القرآن: (59سے62) ربط کلام : مومن عورتوں کو اوباش لوگوں کی اذّیت سے بچانے کے لیے پردے کا حکم اور اس کا طریقہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ کے مشرکین اللہ کے رسول (ﷺ) کے انتہا درجہ کے مخالف تھے۔ اور انہوں نے آپ (ﷺ) کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی لیکن اس کے باوجود وہ خاندانی روایات کا خیال رکھتے ہوئے کسی حد تک اخلاقی اقدار کا احترام کرتے تھے۔ یہ اخلاقی پاسداری کا نتیجہ تھا کہ ہجرت کے موقع پر انہوں نے رات بھر آپ (ﷺ) کے گھر کا محاصرہ کیے رکھا لیکن دیواریں پھلانگ کر آپ کے گھر داخل نہ ہوئے کہ اس طرح خواتین خانہ کی بے حرمتی ہوگی اور عرب میں ہماری بدنامی ہوگی۔ ان کے مقابلے میں مدینہ کے یہود اور منافقین کی اخلاقی گراوٹ کا یہ حال تھا کہ انہیں جونہی موقعہ ملتاوہ مسلمان عورتوں کو پریشان کرنے کی کوشش کرتے۔ اس صورت حال کے پیش نظر اور مسلمان خواتین کی ناموس کو بچانے کے لیے ہمیشہ کے لیے یہ قانون جاری ہوا کہ اے پیغمبر (ﷺ) ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومن خواتین کو حکم دیں کہ جب وہ گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں پر چادریں لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ اس طرح وہ عام عورتوں سے ممتاز ہوں گی اور اوباش آدمی ان پر دست درازی کرنے سے گھبرائے گا۔ اس سے پہلے پردہ کے بارے میں جو کوتاہی سرزد ہوگئی اللہ تعالیٰ اسے معاف کرے گا کیونکہ وہ انتہائی شفقت فرمانیوالا ہے۔ اس کے باوجود منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں شرارت اور بے حیائی کا روگ ہے اگر وہ تہمت طرازی اور بے حیائی پھیلاتے ہیں تو ہم مسلمانوں کو ان پر مسلط کردیں گے پھر وہ تھوڑی مدت ہی مدینہ میں ٹھہر سکیں گے۔ وہ جہاں بھی ہوں گے ان پر پھٹکار ہوگی اور جہاں پائے جائیں گے قتل کردیئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ان سے پہلے مجرموں کے ساتھ یہی سلوک اور قانون تھا۔ اے نبی (ﷺ) آپ ” اللہ“ کے قانون میں کبھی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ پردے کے بارے میں اس سورۃ کی آیت 53میں اور سورۃ نور کی کی آیت 31میں تفصیلی احکام گزر چکے ہیں۔ یہاں صرف یہ بات عرض کی جائے گی کہ قرآن مجید نے پردہ کے لیے جلابیب کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی اہل علم نے گھونگھٹ کیا ہے۔ جو لوگ چہرے کے پردے کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ انسان کا چہرہ ہی اس کی پہچان، اس کے حسن و جمال اور جذبات کا ترجمان ہوتا ہے۔ اگر کسی عورت کا چہرہ ناپسند ہو تو کوئی آدمی اس عورت کی طرف راغب نہیں ہوتا۔ اس لیے عورت کے لیے چہرے کا پردہ کرنا فرض ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) کا دستور تھا کہ سفر کے دوران جب کوچ کرتے تو ایک آدمی کو پیچھے چھوڑتے تاکہ قافلے کی گری پڑی چیز کو اٹھائے اور اس کے مالک تک پہنچائے۔ اس آیت کا یہی مفہوم امہات المومنین سمجھتی تھیں۔ حضرت عائشہ (رض) اپنا واقعہ بیان فرماتی ہیں کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر ” صفوان بن معطل (رض) لشکر کے پیچھے تھے۔ صبح کے وقت وہ میری ٹھکانہ پر پہنچ گئے انہوں نے مجھے سوئے ہوئے دیکھا تو پہچان لیا کیونکہ انہوں نے پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ صفوان (رض) نے مجھے دیکھ کرافسوس کا اظہار کیا۔ میں نے اٹھ کر فوراً اپنا چہرہ چادر کے ساتھ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم ! میں نے افسوس کے کلمات کے علاوہ ان سے کوئی بات نہیں سنی۔“ [ رواہ البخاری : باب حدیث الافک] حضرت عائشہ (رض) کے عمل سے ثابت ہوا کہ چہرے کا پردہ لازم ہے۔ اس کے با وجود جو لوگ چہرے کے پردے کی مخالفت کرتے ہیں انہیں غور کرنا چاہئے کہ اگر عورت نے چہرہ کا پردہ نہیں کرنا تو پھر مرد اور عورت کے لباس میں کیا فرق رہ جاتا ہے کیونکہ ہر دور میں مرد تہبند اور قمیض پہنے کے ساتھ اپنے سر پر دستار یا ٹوپی پہنتے آرہے ہیں ۔ اگر عورت نے پوری سنجیدگی کے ساتھ شرعی پردہ کیا ہو اور اس کی چال ڈھال میں شرافت اور متانت ہو تو اوباش آدمی اس کی طرف بڑھنے سے گھبراتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پردہ میں عورت کے لیے ایک رعب اور وقار رکھا ہے۔ جو لوگ باحیا اور پردہ نشین عورتوں کے بارے میں تہمت درازی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر پھٹکار کرتا ہے یاد رہے کہ مسلمان معاشرے میں اخلاقی قدریں اتنی بلند ہونی چاہیے کہ اوباش آدمی جہاں جائے اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اوباش لوگوں کو گرفتار کرے اور انہیں قرار واقعی سزا دے ہجرت کے بعد اور مدینہ کے ابتدائی دور میں کچھ اوباش بازار میں چلتے وقت مسلمان عورتوں کو تنگ کرتے اس لیے نبی (ﷺ) نے یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہ (ﷺ) قَالَ لاَ تَبْدَءُ وا الْیَہُودَ وَلا النَّصَارَی بالسَّلاَمِ فَإِذَا لَقِیتُمْ أَحَدَہُمْ فِی طَرِیقٍ فَاضْطَرُّوہُ إِلَی أَضْیَقِہِ) [ رواہ الترمذی : باب النَّہْیِ عَنِ ابْتِدَاء۔۔] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا یہودیوں اور عسائیوں کو سلام میں پہل نہ کرو ! جب ان میں سے کوئی راستے میں ملے تو اس کو تنگ راستے کی طرف مجبور کردو!“ مسائل: 1۔ نبی اکرم (ﷺ) کی بیویوں اور بیٹیوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کو بھی پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ 2۔ پردہ مومن عورتوں کی پہچان اور شان ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: عورتوں کو پردے اور حیا کا حکم : 1۔اے نبی مومن مردوں سے فرمادیں کہ اپنی نظریں بچا کہ رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔(النور: 30، 60) 2۔ نماز قائم کرو ،زکوۃ دو،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو’’اللہ‘‘ چاہتا ہے کہ نبی کے گھر والوں سے ہر قسم کی غلاظت کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔(الاحزاب:33)