يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا
اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں داخل (43) نہ ہوا کرو، الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لئے داخل ہونے کی اجازت دی جائے، لیکن تم (پہلے ہی سے بیٹھ کر) اس کے پکنے کا انتظار نہ کرو، بلکہ تمہیں بلایا جائے تو داخل ہوجاؤ، اور جب کھا چکو تو منتشر ہوجاؤ، اور آپس میں بات چیت کرنے میں دلچسپی نہ لو، بے شک تمہاری یہ حرکت نبی کو تکلیف پہنچاتی ہے، لیکن وہ تم سے حیا کرتے ہیں، اور اللہ حق بات بیان کرنے میں حیا نہیں کرتا ہے، اور جب تم ان (امہات المومنین) سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے اوٹ سے مانگو، ایسا کرنے سے تمہارے اور ان کے دل زیادہ پاکیزہ رہیں گے، اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاؤ، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے شادی کرو، تمہارا ایسا کرنا اللہ کے نزدیک بڑے گناہ کی بات ہے
فہم القرآن: (آیت53سے54) ربط کلام : ازواجی زندگی کے اصول بتلانے کے ساتھ مسلمانوں کو آداب معاشرت سمجھائے جاتے ہیں یہاں دورِجاہلیت کی ایک اور رسم کے خاتمے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے کچھ مسلمان نبی کریم (ﷺ) کے گھر میں بلا اجازت داخل ہوجاتے اور بن بلائے مہمان بن جایا کرتے تھے۔ حیا کے پیش نظر آپ (ﷺ) انہیں کچھ نہ کہتے۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ اے صاحب ایمان لوگو! نبی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرو اور نہ ہی بن بلائے مہمان بننے کی کوشش کیا کرو۔ جب تمہیں کھانے کی دعوت دی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھانے سے فارغ ہوجاؤ تو اٹھ جایا کرو۔ خواہ مخواہ باتیں کرتے ہوئے نبی کریم (ﷺ) کے گھر میں بیٹھے رہنے سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔ آپ حیا کی وجہ سے تمہیں اٹھنے کے لیے نہیں کہتے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ حق بات بتلانے میں حیا نہیں کرتا۔ جب نبی اکرم (ﷺ) کے اہل خانہ سے کوئی چیز لینا مقصود ہو تو ان سے پردہ میں رہ کر مانگا کرو۔ یہ تمہارے لیے نہایت پاکیزہ طریقہ ہے اور نبی اکرم (ﷺ) کے اہل خانہ کے لیے بھی بہتر ہے۔ اے مسلمانو! ایسی ہر حرکت سے اجتناب کرو جس سے رسول (ﷺ) کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ رسول معظم (ﷺ) کی بیویاں تمہارے لیے محترم ہیں جن کے ساتھ تمہارا کبھی نکاح نہیں ہوسکتا۔ نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھ امت کے رشتے کا ذکر کرتے ہوئے اسی سورت کی آیت ٦ میں ارشاد ہوا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ماں کے ساتھ کسی صورت میں بھی بیٹا نکاح نہیں کرسکتا ایسا سوچنا بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ امّت کے لوگوں کو مزید انتباہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم کوئی بات ظاہر کرو یا چھپائے رکھو۔ اللہ تعالیٰ ہر چیزکو جاننے والا ہے۔ اس آیت کریمہ میں نبی اکرم (ﷺ) کے حوالے سے مسلمانوں کو معاشرت کے عظیم اور بہترین آداب سے سکھلائے گئے ہیں۔ اگر مسلمان معاشرہ میں ان آداب کا خیال رکھا جائے تو بہت سی اخلاقی بیماریوں کا از خود قلع قمع ہوسکتا ہے۔ اس حکم کے مطابق غیر محرم عورتوں سے ہر سطح پر ہر قسم کا اختلاط ناجائز ہے۔ افسوس اس کے باوجود آج کے نام ونہاد دانشور سکولوں، کالجز، یونیورسٹیوں اور دفاتر میں مرد وزن کا اختلاط جائز قرار دیتے ہیں حالانکہ اس کے مضمرات نے معاشرے کو اخلاقی طور پر تباہ کے رکھ دیا ہے۔ (عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الأَنْصَارِیِّ قَالَ کَانَ مِنَ الأَنْصَارِ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ أَبُو شُعَیْبٍ، وَکَانَ لَہُ غُلاَمٌ لَحَّامٌ فَقَالَ اصْنَعْ لِی طَعَامًا أَدْعُو رَسُول اللَّہ (ﷺ) خَامِسَ خَمْسَۃٍ، فَدَعَا رَسُول اللَّہ (ﷺ) خَامِسَ خَمْسَۃٍ، فَتَبِعَہُمْ رَجُلٌ فَقَال النَّبِی (ﷺ) إِنَّکَ دَعَوْتَنَا خَامِسَ خَمْسَۃٍ وَہَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبِعَنَا، فَإِنْ شِئْتَ أَذِنْتَ لَہُ، وَإِنْ شِئْتَ تَرَکْتَہُ قَالَ بَلْ أَذِنْتُ لَہُ )[ رواہ البخاری : باب الرَّجُلِ یَتَکَلَّفُ الطَّعَامَ لإِخْوَانِہِ] ” ابو مسعود انصاری بیان کرتے ہیں ایک انصاری آدمی جس کا نام ابو شعیب تھا اس کا ایک غلام قصاب تھا۔ ابو شعیب نے اپنے غلام کو کہا میرے لیے کھانا تیار کرو تاکہ میں نبی اکرم (ﷺ) اور پانچ آدمیوں کو دعوت دوں۔ چنانچہ ابو مسعود (رض) نے نبی اکرم (ﷺ) سمیت پانچ آدمیوں کو دعوت دی۔ نبی (ﷺ) کے ساتھ ایک اور آدمی چل پڑا۔ آپ (ﷺ) نے ابو شعیب کو فرمایا کہ آپ نے پانچ آدمیوں کو دعوت پر بلایا ہے لیکن یہ آدمی اپنے طور پر آ گیا ہے اگر تو چاہتا ہے تو اسکو اجازت دے دے اور اگر نہیں چاہتا ہے تو اسے واپس کر دے۔ ابو شعیب نے کہا کہ میں اسے اجازت دیتا ہوں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ (ﷺ) لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَیْکَ بِغَیْرِ إِذْنٍ، فَخَذَفْتَہُ بِعَصَاۃٍ، فَفَقَأْتَ عَیْنَہُ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْکَ جُنَاحٌ )[ رواہ البخاری : باب مَنْ أَخَذَ حَقَّہُ أَوِ اقْتَصَّ دُون السُّلْطَانِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم (ﷺ) نے فرمایا اگر کوئی بندہ اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا لاٹھی کے ساتھ اس کی آنکھ پھوڑ دے تو لاٹھی مارنے والے پر کوئی گناہ نہیں۔“ مسائل: 1۔ کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا گناہ ہے۔ 2۔ کسی کے ہاں بن بلائے مہمان بن بیٹھنا جائز نہیں۔ 3۔ دعوت کھانے کے بعد خواہ مخواہ میزبان کے گھر بیٹھے رہنا آداب کے منافی ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے سے نہیں شرماتا۔ 5۔ غیر محرم عورتوں سے اختلاط حرام ہے۔ 6۔ کسی کے اہل خانہ سے کوئی چیز لینا مطلوب ہو تو پردے میں رہ کر سوال کرنا چاہیے۔ 7۔ امہات المومنین کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنا اور ان کے بارے میں بد کلامی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ 8۔ ازواج مطہرات امت کی مائیں تھیں اس لیے ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں تھا۔ تفسیر بالقرآن: نبی اکرم (ﷺ) اور آپ کے اہل خانہ کا احترام فرض ہے : 1۔ آپ (ﷺ) کو دور سے آواز نہ دی جائے۔ (الحجرات :4) 2۔ آپ (ﷺ) کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ (الحجرات :2) 3۔ آپ (ﷺ) سے آگے قدم نہ اٹھایا جائے۔ (الحجرات :1) 4۔ آپ (ﷺ) کی مکمل اتباع کی جائے۔ (محمد :33) 5۔ نبی معظم (ﷺ) کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہیں ہونا چاہیے۔ (الاحزاب :53)