يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اے اہل کتاب ! ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو، حالانکہ تورات اور انجیل تو ان کے بہت بعد میں نازل کی گئی ہیں، کیا تم سمجھتے نہیں ہو
فہم القرآن : (آیت 65 سے 68) ربط کلام : اہل کتاب اپنے غلط اور مشرکانہ موقف کی تائید کے لیے عیسائی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عیسائی اور یہودی ان کو یہودی ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ اس کی تردید اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کی سراحت اور ان سے امت مسلمہ کے تعلق کی وضاحت کی گئی ہے۔ قومیں جب گمراہی کا شکار ہوتی اور الٹے پاؤں چلتی ہیں تو وہ صرف مذہب کا حلیہ ہی نہیں بگاڑا کرتیں بلکہ تاریخ کے مسلّمہ حقائق کو تبدیل کرتے ہوئے اپنے اختلافات میں ان بزرگوں کو گھسیٹ لاتی ہیں جن کا ان کے اختلافات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ صرف اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے کے لیے ان شخصیات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے عیسائیوں پر برتری ثابت کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہودی اور عیسائیوں نے یہودیوں پر اپنا سکہ جمانے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عیسائی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان کی دیکھا دیکھی مشرکین مکہ نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ ہم اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد اور کعبہ کے متولّی ہیں۔ اگر ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث اور تولیت کے اہل نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے گھر کا متولّی اور نگران نہ بناتا۔ لہٰذا محمد اور اس کے ساتھیوں کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کوئی تعلق نہ ہے۔ ان لوگوں کی تردید اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا رسول کریم اور آپ کی امت محمدیہ کے ساتھ رشتہ ثابت کرنے کے لیے ان کے عقیدے اور شخصیت کی وضاحت کی جارہی ہے کہ تورات وانجیل تو عرصۂ دراز کے بعد نازل ہوئیں۔ تم اپنی جہالت کی بنیاد پر ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ وہ نہ یہودی تھے نہ عیسائی اور نہ ہی مشرکین کے ساتھ ان کا کوئی تعلق تھا اور ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تعلق محمد عربی (ﷺ) اور ان کے ماننے والوں کا ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) صرف ایک ہی رب کی عبادت کرنے اور اس کی توحید کی دعوت دینے والے اور اللہ کے تابع فرمان تھے۔ افسوس! اسی مرض میں امت محمدیہ مبتلا ہوچکی ہے کہ آج قرآن وسنت کے داعی حضرات کو مقلد حضرات طعنہ دیتے ہیں کہ تمہارا کوئی امام نہیں اور بغیر امام کے کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ کچھ علماء غلو کرتے ہوئے یہاں تک کہتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) بھی مقلد تھے۔ (نعوذ باللہ) حالانکہ تقلید چار سو سال بعد شروع ہوئی۔ مزید تفصیل کے لیے سورۃ البقرۃ آیت : 170 ملاحظہ فرمائیں۔ اہل تشیع نے اخلاق کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے واقعۂ کربلا کو اس قدر پھیلایا ہے کہ تین خلفاء اور چند اصحاب کے علاوہ باقی صحابہ کرام (رض) کو شہادت حسین میں ملوث سمجھتے ہوئے ان پر دشنام کرتے ہیں۔ جب کہ یہ واقعہ حضرت ابو بکر (رض) کے 47 سال بعد حضرت عمر (رض) کے 36 سال بعد اور حضرت عثمان (رض) کے 26 سال بعد رونما ہوا۔ اور انکا واقعہ کربلا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسائل : 1۔ تورات و انجیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئیں۔ 2۔ جس مسئلہ کا علم نہ ہو اس میں بحث نہیں کرنی چاہیے۔ 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی، عیسائی اور مشرک نہیں تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کا دوست ہے۔ 5۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تعلق حضرت محمد (ﷺ) اور مسلمانوں کا ہے۔ تفسیربالقرآن : رسول اللہ (ﷺ) کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تعلق خاص : 1۔ نبی کریم (ﷺ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ (الحدید :26) 2۔ نبی کریم (ﷺ) کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ نسبت ہے۔ (آل عمران :68) 3۔ نبی کریم (ﷺ) کے بارے میں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا۔ (البقرۃ:129) 4۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی رسول اللہ (ﷺ) اور امت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ (الممتحنۃ:6)