كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم کیسے اللہ کا انکار کرتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے، تو اس نے تمہیں زندہ کیا، پھر تم پر موت طاری کردے، پھر تمہیں (دوبارہ) زندہ کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
فہم القرآن : ربط کلام : بنی آدم کا اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد توڑنے یعنی توحید کا انکار کرنے کا کوئی جواز نہیں اس پر سوا لیہ انداز میں انتباہ کیا گیا ہے کہ تمہارے پاس اس سے انکار کی کوئی عقلی، نقلی اور فطری دلیل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفروشرک، رسالت مآب {ﷺ}کا انکار، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے ابدی اور ازلی عہد کو توڑنا، باہمی تعلقات کو قطع کرنا اور زمین پر دنگا فساد کرنا یہ ایسے کام ہیں جن میں اعتقادی اور عملی طور پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور انکار پایا جاتا ہے۔ جس کا انسان کو کسی اعتبار سے حق نہیں پہنچتا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عدم سے وجود بخشا اور اس کے بعد موت سے ہمکنار کرکے دوبارہ زندہ کرنے کے بعد ابدی زندگی کے لیے اٹھائے گا یہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنے خالق کے سامنے بے بس ہے جب انسان اپنی موت و حیات اور وجود پر اختیار نہیں رکھتا تو اسے اتنی جرأت کیونکر کہ وہ قادر مطلق کا انکار کرے۔ حالانکہ اس کا اپنے اعمال سمیت رب ذو الجلال کے حضور پیش ہونا یقینی امر ہے جس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ بے شک انسان کا جسم راکھ کی شکل اختیار کر کے ہواؤں کی نذر ہوجائے یا پانی میں حل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ان ذرّات کو مجتمع فرما کر انسانی جسم کو روح سمیت اپنے حضور پیش ہونے کا حکم صادر فرمائے گا۔ اس حقیقت کو قرآن اور رسول معظم {ﷺ}نے ان الفاظ میں بیان فرمایا : ﴿قُلْ کُوْنُوْاحِجَارَۃً أَوْ حَدِیْدًا۔ أَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ﴾ (بنی اسرائیل :50) ” آپ فرمائیے تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا اس سے بڑی مخلوق جو تمہارے دل میں آئے۔“ ﴿مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی﴾ (طٰہٰ:55) ” اس زمین سے ہی ہم نے تمہیں پیدا کیا اس میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ نکالیں گے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ کَانَ رَجُلٌ یُسْرِفُ عَلٰی نَفْسِہٖ فَلَمَّا حَضَرَہُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِیْہِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِ قُوْنِی ثُمَّ اطْحَنُوْنِی ثُمَّ ذَرُوْنِی فِی الرِّیْحِ فَوَ اللّٰہِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَیَّ رَبِّی لَیُعَذِّبَنِّی عَذَابًا مَا عَذَّبَہُ أَحَدًا فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِہٖ ذٰلِکَ فَأَمَرَ اللّٰہُ الْأَرْضَ فَقَالَ اجْمَعِی مَا فِیْکِ مِنْہُ فَفَعَلَتْ فَإِذَا ھُوَ قَآئِمٌ فَقَالَ مَا حَمَلَکَ عَلٰی مَا صَنَعْتَ قَالَ یَا رَبِّ خَشْیَتُکَ فَغَفَرَ لَہُ) (رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں نبی کریم {ﷺ}نے فرمایا کہ ایک آدمی اپنے آپ پر بڑا ظلم و ستم کرتا تھا۔ موت کے قریب اس نے اپنے بیٹوں کو کہا جب میں فوت ہوجاؤں تو میری لاش کو جلا کر راکھ ہواؤں میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم ! اگر مجھ پر میرے رب نے قابو پالیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ اس سے پہلے اس نے کسی کو عذاب نہ دیا ہوگا۔ چنانچہ اس کی موت پر اس کے ساتھ ایسے ہی کیا گیا اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ تیرے پاس جو کچھ ہے سب جمع کر دے۔ جمع کرنے کے بعد اس آدمی سے پوچھاکہ تو نے اس طرح کیوں کیا؟ جواباً اس نے عرض کی۔ اے اللہ! تیرے ڈر کی وجہ سے میں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا۔“ جہنمیوں کا اعتراف : ﴿قَالُوْارَبَّنَآ أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ إِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ﴾ (المؤمن :11) ” کہیں گے اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو مرتبہ زندہ کیا ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو کیا یہاں سے نکلنے کی کوئی راہ ہے؟۔“ تمام مفسرین نے دو اموات سے مراد ایک وہ موت لی ہے جب انسان عدم کی حالت میں ہوتا ہے، دوسری موت انسانی زندگی کا خاتمہ ہے اسی طرح دنیوی زندگی اور دوسری جنت یا جہنم کی زندگی ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کو ہی موت و حیات پر اختیار ہے اور اسی کی طرف سب نے جمع ہونا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے اقتدار اور اختیار کا انکار کرنا کفر ہے۔ 3۔ انسان کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے رب کی ذات اور صفات کا انکار کرے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کا کوئی جواز نہیں : 1۔ ” اللہ“ ہی خالق ہے اس کے ساتھ کفر کیوں؟ (البقرہ :85) 2۔ ” اللہ“ کی آیات پڑھی جانے کے باوجود کفر کا کیا معنی؟ (آل عمران :101) 3۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا ” اللہ“ ہے اس کے ساتھ دوسرا الٰہ کیوں؟ (النمل :60) 4۔ بحرو بر میں رہنمائی کرنے والا ” اللہ“ ہے اس کا انکار کیوں؟ (النمل :63) 5۔ زندہ کرنے والے اور رزق عطا فرمانے والے ” اللہ“ کے ساتھ کفر چہ معنی دارد؟ (النمل :64) 6۔ پریشانیوں کا مداوا کرنے والا صرف ” اللہ“ ہے اس کا انکار کیوں؟ (النمل :62)