تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
رات میں ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اپنے رب کو اس کے عذاب کے ڈر سے اور اس کی جنت کی لالچ میں پکارتے ہیں اور ہم نے انہیں جو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
فہم القرآن: (آیت16سے17) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے لوگ رات کے وقت اٹھ کر بھی اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ نیک لوگوں کے اوصاف حمیدہ میں یہ وصف ضرور شامل ہوتا ہے کہ وہ ساری رات خراٹے لے کر نہیں سوتے جونہی سحری کا وقت قریب ہوتا ہے وہ نیند سے اچاٹ ہوتے ہیں اور اپنے نرم ونازک اور آرام دہ بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کے حضور خوف وطمع کی حالت میں فریادیں کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے قرار اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا جس کا کسی کے دل میں خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ ان کے اچھے اعمال کا بدلہ ہوگا یہاں مومن کے دل کی کیفیت کا ذکر خوف اور طمع کے حوالے سے کیا گیا ہے مومن کی یہی حالت ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے اعمال کی طرف نگاہ کرتا ہے تو اسے ” اللہ“ کی پکڑ کا خیال آتا ہے جس پر لرزاں وترساں ہوتا ہے جب اس کا خیال اللہ تعالیٰ کی بے کراں رحمت کی طرف جاتا ہے تو اس کی امید اپنے رب پر مضبوط ہوجاتی ہے اس کیفیت کی وجہ وہ عسر، یسر میں اپنے عزیز و اقرباء اور مساکین پر خرچ کرتا ہے۔ (عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ أنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (رض)، اِشْتَکٰی فَدَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ (ﷺ) یَعُوْدُہٗ فَقَالَ کَیْفَ تَجِدُکَ یَا عُمَرُ ؟ فَقَالَ اأرْجُوْ وَأَخَافُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ (ﷺ) مَا اجْتَمَعَ الرَّجَاءُ وَالُخَوْفُ فِیْ قَلْبِ مَؤْمِنٍ إِلَّا اأعْطَاہ اللّٰہُ الرَّجَاءَ وَأَمِنَہُ الْخَوْفَ) [ رواہ البیھقی : باب فی الرجاء من اللہ تعالی] ” سعید بن مسیب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) بیمار ہوگئے تو نبی اکرم (ﷺ) ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ (ﷺ) نے پوچھا اے عمر! اپنے آپ کو کیسے محسوس کررہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا مجھے امید بھی ہے اور خوف بھی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ مومن کے دل میں امید اور خوف دونوں حالتیں نہیں جمع ہوتیں مگر اللہ تعالیٰ اس کی امید پوری کردیتے ہیں اور اسے خوف سے محفوظ فرمالیتے ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَأتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا اِنْ شِئتُمْ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ﴾) [ رواہ البخاری : باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں‘ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ان کے بارے میں کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا اگر تمہیں پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔“ نماز تہجد کی فضیلت : عبادات میں سب سے افضل عبادت فرض نماز ہے۔ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔ جسے نفل نماز قرار دیا گیا ہے۔ نفل کا معنیٰ ہوتا ہے ” زائد چیز“۔ رسول محترم نے نوافل کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن فرض نماز کی کمی نفل نماز سے پوری کی جائے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک پہلے آپ (ﷺ) پر تہجد فرض تھی۔ بعد ازاں اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ تہجد کا لفظ ” جہد“ سے نکلاہے۔ جس سے مراد ” نیند کے بعد بیدار ہونا“ ظاہر ہے یہ کام ہمّت اور کوشش کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس لیے جہد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کچھ اہل علم ضروری سمجھتے ہیں کہ تہجدکچھ دیر سونے کے بعداٹھ کر پڑھنی چاہیے۔ ان کے بقول سونے سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل تہجد شمار نہیں ہوتے۔ لیکن احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی اپنی صحت اور فرصت کے پیش نظر رات کے کسی پہر میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔ البتہ تہجد کے لیے افضل ترین وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ سحری کا وقت حاجات و مناجات اور سکون و اطمینان کے لیے ایسا وقت ہے کہ لیل و نہار کا کوئی لمحہ ان لمحات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ زمین و آسمان کی وسعتیں نورانی کیفیت سے لبریز دکھائی دیتی ہیں۔ ہر طرف سکون و سکوت انسان کی فکر و نظر کو جلابخشنے کے ساتھ خالق حقیقی کی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف رات اپنے سیاہ فام دامن میں ہر ذی روح کو سلائے ہوئے ہے اور دوسری طرف بندۂ مومن اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے کروٹیں بدلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کہیں نیند کی غفلت میں پرنور لمحات گذر نہ جائیں۔ وہ ٹھنڈی راتوں میں یخ پانی سے وضو کرکے رات کی تاریکیوں میں لرزتے ہوئے وجود اور کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ شکر و حمد اور فقر و حاجت کے جذبات میں زار و قطار روتا ہوا فریاد کناں ہوتا ہے۔ وہ آنسوؤں کے پانی سے اس طرح اپنی ردائے حیات کو دھو ڈالتا ہے کہ اس کا دامن گناہوں کی آلودگی سے پاک اور وجود دنیا کی تھکن سے ہلکا ہوجاتا ہے۔ طویل ترین قیام اور دیر تک رکوع وسجود میں پڑارہنے سے تہجد بندۂ مومن کو ذہنی اور جسمانی طور پر طاقت و توانائی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اگر وہ خورد و نوش میں مسنون طریقوں کو اپنائے تو اس کو کسی قسم کی سیر و سیاحت حتیٰ کہ معمولی ورزش کی بھی حاجت نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ تہجد گزار بندوں کی اس طرح تعریف فرماتا ہے۔ ﴿تَتَجَا فٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾[ السجدۃ:16] ” وہ اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَ ۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرُ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَسْاَلْنِیْ فأُعْطِیَہٗ مَنْ یَسْتَغْفِرْنِیْ فَأَغْفِرَلَہُ) [ رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتا ہے : کون ہے جو مجھ سے طلب کرے کہ میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔“ تفصیل کے لیے دیکھئے : (میری کتاب آپ (ﷺ) کا تہذیب وتمدن اور فہم القرآن: جلد 3صفحہ نمبر : 929۔930) صدقہ کی فضیلت : (اِنَّ الصَّدَ قَۃَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّ بِّ وَ تَدْفَعُ مِیتَۃَ السَّوْءِ) (مشکوۃ: باب فضل الصدقۃ(ضعیف)) ” صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچا تا ہے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کیا اور اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب] (مَامِنْ مُّسْلِمٍ غَرَسَ غَرْسًا فَأَکَلَ مِنْہُ إِنْسَانٌ أَوْ دَآبَّۃٌ إِلَّا کَانَ لَہٗ بِہٖ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب] ” جس مسلمان کے کھیت سے کسی انسان یا جانورنے دانہ کھایا اسے بھی صدقہ کا ثواب ملے گا۔“ (کُلُّ سُلَامٰی عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ کُلَّ یَوْمٍ یُعِیْنُ الرَّجُلَ فِیْ دَابَّتِہٖ یُحَامِلُہٗ عَلَیْھَا أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْھَا مَتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ وَالْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ وَکُلُّ خُطْوَۃٍ یَمْشِیْھَا إِلَی الصَّلٰوۃِ صَدَقَۃٌ وَدَلُّ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” روزانہ ہر جوڑ پر صدقہ ہے کسی آدمی کو سواری کے لیے سواری دے دینا یا کسی کے سامان کو سواری پر رکھ لینا صدقہ ہے اور اچھی بات کہناصدقہ ہے۔ نماز کے لیے جاتے ہوئے ہرقدم کا بدلہ صدقہ ہے اور کسی کو راستہ بتلانا صدقہ ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے بندے اپنے رب کے خوف اور اس کی رحمت کی طلب میں رات کے وقت اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کے حضور قیام کرتے ہیں۔ 2۔ اللہ کے بندے اپنے رب سے ڈرتے بھی ہیں اور اس کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔ 3۔ اللہ کے بندے عسر، یسر میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جس کا خیال کسی کے دل میں نہیں آسکتا۔ تفسیر بالقرآن: نماز اور صدقہ کی فضیلت : 1۔ نماز کی پابندی کیجئے دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں بھی بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ( العنکبوت :45) 2۔ صدقہ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن :17) 3۔ اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ:261) 4۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ:261) 5۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید :11) 6۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف :88) 7۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا :39) 8۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد :22)