يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
اے میرے بیٹے ! نماز قائم (١٠) کر، بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روک اور تجھے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ سارے کام بڑے ہمت کے اور ضروری ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی وصیّت۔ عظیم باپ اپنے لخت جگر کو نصیحت پر نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے اے بیٹا آخرت کی فکر کرو، فکر آخرت کا تقاضا ہے کہ انسان نیک بن جائے۔ عقیدہ توحید پر کار بند ہونے کے بعد سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے رب کے حضور نماز پڑھے۔ نماز نہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبوب عبادت ہے بلکہ یہ عظیم ترین نیکی ہونے کے ساتھ نمازی کو برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ بشرطیکہ اس کو اس کے تقاضوں کے ساتھ ادا کیا جائے۔ نمازی بننے کے ساتھ لوگوں کو نیکی کی تلقین کرو اور برائی سے منع کرتے رہو اسی بات کو ” قرآن مجید“ نے امر بالعمروف اور نہی عن المنکر کا نام دیا ہے۔ اگر یہ کام روایتی اور پیشہ کے طور پر نہ کیا جائے تو اس راستے میں مشکلات کا آنا یقینی امر ہے۔ جس پر تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی زندگیاں گواہ ہیں اس لیے حضرت لقمان فرماتے ہیں بیٹا صبر کے ساتھ مصائب و آلام کو برداشت کرنا بڑے عزم کا کام ہے۔ مسائل: 1۔ نماز قائم کرنا، لوگوں کو اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چاہیے۔ 2۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے راستے میں مصائب پر صبر کرنا بڑے عزم کی بات ہے۔ تفسیر بالقرآن: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت : 1۔ مؤمن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ (آل عمران :114) 2۔ اے ایمان والو ! اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ (التحریم :6) 3۔تم بہترین امت ہو اس لیے کہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائ سے روکتے ہو۔(آل عمران :110)