وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا ۖ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سے انبیاء (٣٢) کو ان کی قوموں کے پاس بھیجا تھا، جو ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، پس جن لوگوں نے جرم کیا ان سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر مومنوں کی تائید و نصرت واجب تھی
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں بتلانے اور توحید کا سبق سکھلانے کے لیے اپنے رسول بھیجے۔ پہلے ابر کرم کا ذکر کیا اب رحمت نبوت کا ذکر کیا جاتا۔ جس طرح بارش سب کے لیے ہوتی ہے اسی طرح نبوت کی دعوت بھی عام اور سب کے لیے ہے۔ جس طرح لوگوں کی اکثریت اپنے رب کی شکر گزار نہیں ہوتی اسی طرح لوگوں کی اکثریت نبوت کی ناقدری کرتے اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ نبوت کا فیض سب کے لیے عام ہوتا ہے جس سے مومن فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت بہتر بناتے ہیں کافر اس کی مخالفت کرکے دنیا اور آخرت میں نقصان پاتے ہیں حالانکہ ان کے سامنے انبیاء کرام (علیہ السلام) ٹھوس دلائل اور کھلے معجزات پیش کرتے ہیں۔ لیکن کافر نہ صرف ان کا انکار کرتے ہیں بلکہ وہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ جب لوگ ظلم کی حدود پھلانگ جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ظالموں سے ان کے ظلم کا بدلہ لے کر انبیاء اور مومنوں کو ممتاز کردیتا ہے ایسا کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد دنیا کی زندگی میں بھی کرتے ہیں اور آخرت میں بھی کریں گے جس دن گواہ کھڑے کیے جائیں گے۔“ [ المومن :51] تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے نوح، ابراہیم، ہود، صالح، شعیب، موسیٰ، عیسیٰ اور نبی (ﷺ) کی مدد فرمائی : 1۔ (البقرۃ: 253۔ التوبۃ: 40۔ البقرۃ: 87۔ الشعراء : 65۔ یوسف : 34۔ الاعراف : 64۔ ہود : 94۔ الاعراف :83)