وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور تم لوگ جو سود) (٢٥) دیتے ہو، تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور تم لوگ جو زکوۃ دیتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں
فہم القرآن: ربط کلام : پہلی آیت میں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ اب جو چیز صدقہ کرنے میں رکاوٹ بنتی اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کرتی ہے اس کے بارے میں پہلا حکم۔ اسلامی نظام معیشت جن بنیادوں پر قائم ہے۔ اس میں سود کی ممانعت اور زکوٰۃ وصدقات کی ترویج کی بڑی اہمیت وکردار ہے۔ مسلمانوں کی معیشت کی ترقی اور اس کا استحکام اسی میں ہے کہ وہ ہر قسم کے معاشی استحاصل بالخصوص سود کے لین دین سے پاک ہو۔ سودی معیشت کے پیچھے صرف ایک ہی اصول کارفرما ہوتا ہے کہ مال دینے والے کے مال میں اضافہ ہوتا چلا جائے بے شک دوسرا کنگال سے کنگال ہی کیوں نہ ہوجائے۔ اس فرمان میں اس سوچ کی نفی کرتے ہوئے سود خوروں کو سمجھایا ہے کہ جو مال تم اضافہ کے لیے دیتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس میں اضافہ نہیں ہوتا۔ قرآن کے الفاظ کا یہ بھی مفہوم لیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کی معاشی ترقی کے لیے جو تم سود دیتے ہو اس سے ان کے مال میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اور کنگال ہوجاتے ہیں۔ سود کے مقابلے جو تم اللہ کی رضا کی خاطر زکوٰۃ دیتے ہو اس سے ان کے اور تمہارے مال میں اضافہ ہوتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا گیا کہ جن برائیوں میں لوگ بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ان سے نکالنے کے لیے پہلے لوگوں کی فکر میں تبدیلی لائی جائے اور پھر تدریجی عمل کے ذریعے ان کو ان برائیوں سے نکالاجائے۔ اسی اصول کے پیش نظر سود کی حرمت سے پہلے سود خوروں کو سمجھایا گیا کہ جو مال تم سود پر دیتے ہو۔ بظاہر تمہیں اس میں بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن اس سے برکت اٹھا لی جاتی ہے اس لیے سودی نظام معیشت ترقی کرنے کی بجائے بالآخر خسارے پر منتج ہوتا ہے۔ یہاں تک سود لینے اور دینے والے کا معاملہ ہے سود لینے والا بظاہر یہ سمجھتا ہے کہ اس سے میری مشکل حل ہوجائے گی لیکن بالآخر وہ پہلے سے بھی زیادہ مقروض اور خستہ حال ہوجاتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سودی معیشت میں برکت نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ سود کو ختم کرنا چاہتا ہے اور صدقات کو فروغ دینا چاہتا ہے (البقرہ :276) صحابہ کرام (رض) نے ان الفاظ کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا ہے کہ کسی کو تحفہ اور ہدیہ دیتے وقت یہ نیت نہیں رکھنی چاہیے کہ کل اس سے زیادہ وصول کیا جائے گا۔ جہاں تک زکوٰۃ اور صدقہ دینے کا تعلق ہے اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہونی چاہیے۔ زکوٰۃ اور صدقہ سے ایک طرف اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور دوسری طرف جس کو زکوٰۃ یا صدقہ دیا جاتا ہے اس کی مالی معاونت ہونے کے ساتھ اور صدقہ کرنے والے کے مال میں برکت ہوتی ہے جہاں تک قیامت کا اجر ہے وہ سات سو گناہی نہیں۔ دینے والے کے اخلاص اور حلال مال کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے گا اضافہ فرمائے گا۔ ( عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ مَا نَقَصَ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَاد اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍا اِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلّٰہِ اِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ) [ رواہ مسلم : باب استحباب العفو والتواضع] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : کہ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عزت دیتا ہے۔ اور جو اللہ کی رضا کے لیے عاجزی اور انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلند کرتا ہے۔“ ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (ﷺ) نے سود کھانے، کھلانے اور گواہی دینے والوں پرلعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب برابرہیں۔“ [ رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوا وموکلہ] سود خور کی پہلی سزا یہ ہوگی کہ قبر سے اٹھتے ہی یہ ایسی حرکات کرے گا کہ لوگ اسے پہچان جائیں گے کہ یہ وہ اللہ کا باغی اور قومی مجرم ہے جو دنیا میں سود کھایا کرتا تھا۔ اس کی حواس باختگی کو شیطان کے خبط کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اندازہ کیجیے جس شخص پر شیطان مسلط ہوجائے کیا اس سے کسی بھلے کام کی توقع کی جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس پر یہ سزا اس لیے مسلط ہوگی کہ یہ دنیا میں کہا کرتا تھا کہ تجارت اور سود میں کوئی فرق نہیں حالانکہ تجارت اور سود میں مماثلت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ (البقرۃ:257) (سود اور تجارت میں فرق سمجھنے کے لیے البقرۃ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔) مسائل: 1۔ سود سے مال میں اضافہ نہیں ہوتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سودی معیشت سے برکت اٹھا لیتا ہے۔ 3۔ زکوٰۃ اور صدقہ محض اللہ کی رضا کی خاطر دینے چاہیے۔ 4۔ زکوٰۃ اور صدقہ سے لینے اور دینے والے کے مال میں اضافہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: سود کی حرمت کے بارے میں احکام : 1۔ سود حرام ہے۔ (البقرۃ: 275، آل عمران :130) 2۔ سودخوروں کی اللہ اور رسول سے جنگ ہے۔ (البقرۃ:279) 3۔ اللہ سود کو مٹانا چاہتا ہے۔ (الروم :39) 4۔ سود کی حرمت کے بعد سود کھانے کی سخت سزا ہے۔ (البقرۃ:275)