وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں (١١) تاکہ تم ان کے پاس سکون پاؤ، اور تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کی، بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں
فہم القرآ ن : ربط کلام : تخلیق انسانی کا دارومدار میاں بیوی کے ملاپ پر ہے اس لیے اب میاں بیوی کے تعلقات کا ذکر ہوتا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا گیا اس کی تسکین اور نسل کو جاری رکھنے کے لیے اسی سے اس کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا۔ پھر مستقل طور پر میاں، بیوی کارشتہ قائم فرمایا۔ اس رشتہ کے تین بنیادی تقاضے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ناپید ہوجائے۔ تو ازدواجی زندگی بے لطف، بے قراری اور ناہمواری کا شکار ہوجاتی ہے 1 ۔میاں بیوی کے درمیان پُر سکون ماحول ہونا چاہیے جو باہمی اتحاد اور اعتماد کے بغیر ممکن نہیں۔2 ۔اتحاد اور سکون باہمی محبت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ 3 ۔باہمی محبت واحترام کے لیے لازم ہے کہ ایک دوسرے کیساتھ شفقت ومہربانی کا روّیہ اختیار کیا جائے جس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کی کوتاہی کو معاف کیا جانا چاہیے۔ میاں، بیوی کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نتیجہ ہے یہ جتنا بہتر ہوگا اتنا ہی اچھا اثر اولاد کی تربیت پر پڑے گا میاں بیوی معاشرے کا بنیادی یونٹ ہیں اس یونٹ کو مضبوط اور بہتر سے بہترین ہونا چاہیے۔ نبی اکرم (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ تم میں وہ شخص بہتر ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہے۔ میاں، بیوی کے رشتہ میں اللہ کی قدرت ملاحظہ فرمائیں کہ کتنے جوڑے ہیں جو نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تک نہ تھے بلکہ ان کے خاندان بھی ایک دوسرے کے واقف نہیں تھے۔ میاں، بیوی کا جوڑا صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ اس لیے محاورہ ہے کہ ” رشتے زمین پر نہیں آسمانوں پر طے ہوتے ہیں۔“ جونہی میاں، بیوی کا رشتہ قائم ہوتا ہے دونوں خاندانوں میں بھائی چارہ اور میاں، بیوی کے درمیان اس قدر گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے کہ جو لڑکی والدین کے گھر سے باہر ایک رات رہنا بھی سوچ نہیں سکتی۔ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے کے بعد والدین کے گھر آئے تو واپس جانے کے لیے بیتاب ہوتی ہے۔ جوں جوں اولاد ہوتی ہے توں توں والدین سے تعلق کم ہوتا چلا جاتا ہے یہ اللہ کی قدرت نہیں تو اور کیا ہے ؟ نبی اکرم (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ اپنی بیویوں کی قدر کیا کرو کیونکہ ” اللہ“ کے حکم سے ان کا وجود اور عزت وناموس تمہارے لیے جائز قرارپایا ہے۔ ( عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ)۔۔ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللَّہ۔۔) [ رواہ مسلم : باب حَجَّۃِ النَّبِیِّ (ﷺ) ] ” جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔۔ اللہ کے حکم سے تمہاری بیویوں کی شرم گاہیں تمہارے لیے حلال قرار پائی ہیں۔۔“ (خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب عن رسول اللہ] ” وہی شخص اعلیٰ اخلاق کا مالک ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہے اور میں تم سے اپنے گھر والوں کے بارے میں بہت بہتر ہوں۔“ (عَنْ حَکِیْمِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْقُشَیْرِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَاحَقُّ زَوْجَۃِ أَحَدِنَا عَلَیْہِ قَالَ أَنْ تُطْعِمَھَاإِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوَھَا إِذَا اکْتَسَیْتَ وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَھْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا] ” حضرت حکیم بن معاویہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! ہم پر ہماری بیویوں کے کیا حقوق ہیں؟ آپ نے فرمایا : جب کھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے جب کپڑے پہنے تو اسے بھی پہنائے منہ پر نہ مارے‘ نہ گالی دے اور اسے نہ چھوڑ مگر گھر میں۔“ مسائل: 1۔ میاں، بیوی کا رشتہ ” اللہ“ کی قدرت کی نشانی ہے۔ 2۔ میاں، بیوی کے درمیان محبت ومہربانی کا معاملہ ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: میاں، بیوی کا تعلق اور حقوق : 1۔ میاں، بیوی آپس میں لباس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (البقرۃ:187) 2۔ بیوی نسل انسانی کا ذریعہ ہیں۔ (النساء :1) 3۔ بیوی سکون کا باعث ہے۔ (الروم :21) 4۔ بیوی خاوند کی نائب ہے اور خاوند گھر کا منتظم ہے۔ (النساء :34) 5۔ بیوی کو بہترین طریقے سے رکھنا چاہیے اور اچھے طریقے سے چھوڑنا چاہیے۔ ( البقرۃ:231)