فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ
پس تم لوگ اللہ کی پاکی (٨) بیان کرو، جب شام کرو اور جب صبح کرو
فہم القرآن: (آیت17سے18) ربط کلام : جنت کے حصول اور جہنم سے بچنے کا مؤثر ترین ذریعہ ” رب“ کے حضور نماز پڑھنا اور اس کا ثنا خواں رہنا ہے۔ کفار ” اللہ“ کی ذات کے منکر اور اس کے احکام اور ملاقات کو قولاً اور فعلاً جھٹلانے والے ہیں۔ جس وجہ سے جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ جہنم سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ پر سچا ایمان لایا جائے اور اس کے احکام کی تعمیل کی جائے جس کا عملی مظاہرہ یہ ہے کہ آدمی صبح، شام، سہ پہر اور ظہر کے وقت اپنے رب کو یاد کرے یہ اس لیے بھی لازم ہے کہ زمین کا ذرّہ ذرّہ اور آسمانوں کا چپہ چپہ اپنے رب کی حمد بیان کرنے میں لگا ہوا ہے۔ گویا کہ انسان کے گردوپیش اور اوپر نیچے کا ماحول اپنے رب کا ثناخواں ہے۔ جس سے یہ بات لازم ہوجاتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اوقات میں اسے یاد کرے۔ اس لیے پنجگانہ نماز فرض قرار پائی جو اللہ تعالیٰ کی یاد کا بہترین ذریعہ اور طریقہ ہے۔ ظاہر ہے یہ کام وہی شخص کرے گا جو اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان، اس کے احکام کی تعمیل اور قیامت کے دن کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے، قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز کے لیے ”اَقِیْمُوْا“ کا لفظ آیا ہے سورۃ کوثر میں ” فَصَلِّ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا صاف معنٰی ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کو یاد کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، جاہل صوفی اور حدیث رسول کے منکر یہ کہہ کر نماز کا انکار کرتے ہیں کہ اصل چیز اللہ کو یاد کرنا ہے اگر مسنون طریقہ کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حالانکہ تمام صحابہ کرام (رض) نے صبح وشام، ظہر اور عصر کے وقت تسبیح پڑھنے سے مراد فجر، ظہر، عصر اور مغرب کی نماز لی ہے۔ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں رسول اکرم (ﷺ) نے نماز کے اوقات مقرر فرمائے ہیں۔ ” حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول محترم (ﷺ) سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم ہمارے ساتھ دو دن نمازیں ادا کرو۔ پہلے دن جب سورج ڈھلا ہی تھا تو بلال کو اذان کا حکم دیا۔ اس کے بعد اقامت ظہر ہوئی پھر بلال (رض) کو نماز عصر کی اقامت کا حکم فرمایا جبکہ سورج کافی بلند اور دھوپ تیز تھی پھر سورج غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز کھڑی فرمائی ابھی سورج کی سرخی ختم ہونے ہی پائی تھی تو عشاء کی نماز قائم کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر صبح کی نماز کا حکم دیاجبکہ فجرابھی نمودار ہوئی تھی۔ جب دوسرا دن ہوا تو بلال (رض) کو نماز ظہر ٹھنڈی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس نے خوب ٹھنڈے وقت میں اذان کہی۔ نماز عصر تاخیر سے ادا فرمائی لیکن سورج ابھی بلندی پر تھا۔ نماز مغرب سورج کی روشنی کے آثار ختم ہونے سے پہلے ادا کی۔ جب رات کا تیسرا حصہ گزر گیا تو نماز عشا ادا کی گئی، نماز فجر اس وقت ادا کی جب صبح کی روشنی خوب پھیل چکی تھی۔ اب ارشاد ہوا کہ نمازوں کے اوقات پوچھنے والا کہاں ہے؟ وہ عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول میں حاضر ہوں۔ فرمایا تمہاری نمازوں کے وقت ان اوقات کے درمیان ہیں۔“ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلٰوۃ] تسبیح کی فضیلت : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔ مسائل: 1۔ نماز ” اللہ“ کی تسبیح کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ 2۔ زمین وآسماں اور ہر چیز اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن میں نماز کے اوقات : 1۔ نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے لیکر رات تک اور فجر کے وقت قرآن پڑھا کرو۔ (بنی اسرائیل :78) 2۔ دن کے دونوں سروں یعنی صبح شام اور رات کی ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ (ہود :114) 3۔ اللہ کی تسبیح صبح شام بیان کرو اور تیسرے پہر بھی اور جب دوپہر ہو تب بھی۔ (الروم : 17۔18) 4۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اللہ کی تسبیح بیان کریں رات کے کچھ اوقات میں اور نماز کے بعد بھی۔ (ق : 39۔40) 5۔ سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں اور دن کے اطراف میں تسبیح وتحمید بیان کریں۔ (طٰہٰ:130) یاد رہے یہاں تسبیح سے مراد بھی نماز ہے