يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ
اے میرے اہل ایمان بندو ! بے شک میری زمین کشادہ (٣٢) ہے، اس لئے صرف میری ہی عبادت کرو
فہم القرآن: (آیت56سے57) ربط کلام : کفار کو جہنّم کے عذاب کا نقشہ پیش کرنے کے بعد مومنوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ مومنوں دنیا کی تکلیفیں تو معمولی اور عارضی ہیں اگر جہنّم کی تکلیفوں سے بچنا چاہتے ہو تو اپنا ایمان بچا کر ہجرت کر جاؤ۔ ہجرت کرنے والوں کو یہ حکم دیتے ہوئے تسلّی دی گئی ہے کہ یہ نہ سوچو کہ گھر بار چھوڑ کر جائیں تو کدھر جائیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ” اللہ“ کی زمین بڑی وسیع ہے۔ تمہاری زندگی کا مقصد ” اللہ“ کی عبادت اور اس کی غلامی کرنا ہے۔ اس لیے اپنے مقصد حیات کو سامنے رکھو اور اس کے لیے ہجرت کرجاؤ اور اپنے رب کی غلامی میں زندگی بسر کرو۔ اگر تمہیں کسی قسم کے نقصان کا خطرہ ہے تو اس بات پر غور کرو کہ بالآخر تمہاری زندگی نے بھی ایک دن ختم ہونا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کی موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ نیک ہو یا بد اس سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔ سب نے ہمارے حضور پیش ہونا ہے۔ یہاں ظالموں کو ان کے ظلم کی پوری سزا دی جائے گی اور نیکو کاروں کو ان کی نیکیوں اور قربانیوں کا پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ (عن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) فَقُلْتُ ابْسُطْ یَمِینَکَ فَلِاُبَایِعَکَ فَبَسَطَ یَمِینَہٗ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ) [ رواہ مسلم : کتاب التفسیر، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِين﴾] ” حضرت عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ) اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں جب آپ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے فرمایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ آپ پوچھتے ہیں اے عمرو! کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں ارشاد ہوا کہ وہ کونسی شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تو نہیں جانتا یقیناً اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے؟ اسی طرح ہجرت کرنے سے پہلے کے بھی گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور یقیناً حج سے بھی سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض)‘ قَالَ: خَطَّ النَّبِیُّ (ﷺ) خَطَّامُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْ فِی الْوَسَطِ فَقَالَ ھٰذَا الْاِنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ اَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطُوْطُ الصِّغَارُ الْاَعْرَاضُ فَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا وَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : باب فی الامل وطولہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے ایک دفعہ ایک چوکور خط کھینچا اور وسطی خط کے درمیان سے کچھ لکیریں کھینچی۔ ایک لکیر درمیان سے مربع شکل سے باہر نکلنے والی کھینچی اور فرمایا، یہ انسان ہے۔ اور یہ مربع اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور جو لکیر باہر نکل رہی ہے، وہ اس کی حرص ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں آفات وبیماریاں ہیں۔ اگر ایک سے محفوظ رہا تو دوسری اسے آلے گی اگر یہ خطا کر جائے‘ تو تیسری آفت اسے نشانہ بنالے گی۔“ مسائل: 1۔ جہاں ایمان بچانا مشکل ہو وہاں سے ہجرت کر جانا چاہیے۔ 2۔ ” اللہ“ کی زمین بہت ہی وسیع وعریض ہے۔ 3۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ 4۔ ہر نفس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر با لقرآن: ہر کسی کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے : 1۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (الانبیاء :35) 2۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران :145) 3۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران :154) 4۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران :168) 5۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء :78) 6۔ قلعہ بند ہونے والے کو بھی موت آئے گی۔ (النساء :78) 7۔ اے نبی آپ کو بھی موت آنا ہے اور آپ کے مخالفوں نے بھی مرنا ہے۔ ( الزمر :30) 8۔ اللہ تعالیٰ کے سوا سب نے فنا ہونا ہے۔ (الرحمن :26)